الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحتِ سوال صورت مسئولہ میں اجتہاد کہتے ہیں کسی چیز کی تلاش میں اپنی پوری طاقت خرچ کرنا اور اس سے مراد ہے کسی قضیہ (مسئلہ) کو قیاس کے طریقے سے کتاب وسنت کی طرف لوٹانا۔
’’الاجتہاد بذل الوسع في طلب الأمر، والمراد بہ رد القضیۃ من طریق القیاس إلی الکتاب والسنۃ‘‘(۱) کسی فقیہ کا کسی حکم شرعی کو حاصل (استنباط) کرنے کے لئے اپنی پوری طاقت خرچ کرنے کو بھی اجتہاد کہا جاتا ہے۔
اجتہاد کی شرعی حیثیت یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے: {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْٓا أَطِیْعُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْج فَأِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْئٍ فَرُدُّوْہُ إِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْأٰخِرِط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّأَحْسَنُ تَأْوِیْلاًہع ۵۹}(۲)
اس آیت کریمہ میں ادلۃ اربعہ (چاروں دلیلوں) کی طرف اشارہ ہے۔ {أَطِیْعُوا اللّٰہَ} سے مراد قرآن کریم ہے {أَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ} سے مراد سنت ہے {أُولِی الْأَمْرِ} سے مراد علماء اور فقہا ہیں۔ ان میں اگر اختلاف وتنازع نہ ہو؛ بلکہ اتفاق ہو جائے تو اسے اجماعِ فقہاء کہتے ہیں اور اگر {أُولِی الْأَمْرِ} میں علماء وفقہاء کا اختلاف ہو تو ہر ایک مجتہد اپنی رائے سے اجتہاد کرتا ہے اس نئے اور غیر واضح اختلافی مسئلے کا قرآن وسنت کی طرف لوٹانا اور استنباط کرنا اجتہادِ شرعی یا قیاسِ مجتہد کہلاتا ہے۔
’’قال أبو بکر الجصاص: إن أولی الأمر ہم الفقہاء لأنہ أمر سائر الناس بطاعتہم ثم قال فإن تنازعتم في شيء فردوہ إلی اللّٰہ والرسول فأمر أولی الأمر برد المتنازع فیہ إلی کتاب اللّٰہ وسنۃ نبیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا کانت العامۃ ومن لیس من أہل العلم لیست ہذہ منزلتہم لأنہم لا یعرفون کیفیۃ الرد إلی کتاب اللّٰہ والسنۃ ووجوہ دلائلہما علی أحکام الحوادث فثبت أنہ خطاب للعلماء‘‘(۱)
لہٰذا عوام الناس اور غیر عالم کا یہ مقام نہیں ہے کہ اختلافی مسائل کو کتاب وسنت کی طرف لوٹائے؛ اس لیے کہ لوٹانے کا کیا طریقہ ہے یہ اسے معلوم نہیں ہے اور نہ ہی انہیں نت نئے مسائل مستنبط کرنے کے دلائل کے طریقوں کا علم ہوتا ہے؛ اس لئے یہ مقام اور یہ خطاب علماء اور فقہاء ہی کا ہے۔
اجتہاد کا دروازہ ہرایک کے لیے کھلا ہوا ہو اس کی شریعت اسلامیہ میں گنجائش نہیں ہے، البتہ عام تحقیق وتلاش کتاب وسنت میں تدبر وتفکر، ان کے لطائف اور حقائق کا استخراج ہر زمانے کے تکوینی حوادث سے تشریعی مسائل کو تطبیق دے کر مناسب فتاوی دینا ایسے ہی معاندین اسلام کے نئے نئے شکوک وشبہات اور اعتراضات کی تردید کے لیے نصوص شرعیہ سے استنباط کرنا اصول اسلام کے اثبات اور تحقیق کے لئے کتاب وسنت سے تائید پیدا کرنے کا کام ہر دور میں اہل علم کے لیے باقی ہے اور ہر دور میں اہل عمل کے لئے (مذکورہ) میدان باقی ہے اجتہاد کی یہی نوع کل بھی تھی اور آج بھی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔(۲)
(۱) محمد بن محمد الحسیني، تاج العروس من جواہر القاموس: ج ۷، ص: ۵۳۹۔
(۲) سورۃ النساء: ۵۹۔
(۱) أحمد بن علی أبوبکر الجصاص، أحکام القرآن، (سورۃ النساء: ۵۹) ’’باب في طاعۃ أولی الأمر‘‘: ج ۳، ص: ۱۷۷۔
(۲) حکیم الإسلام قاري محمد طیب صاحب، تحقیق: محمد حسنین أرشد قاسمي، اجتہاد اور تقلید: ص: ۷۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص159