الجواب وباللّٰہ التوفیق:ذکر کا یہ طریقہ جائز ہے۔ اس موقع پر روپیہ دینا یا کھانا کھلانا، اگر ذکر کرنے کی اجرت اور بدلہ ہے، تو یہ ناجائز ہے۔اور اجرت اور بدلہ نہیں ہے، تو جائز ہے۔(۲)
(۲) {وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ وَلَا تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْھُمْ ج تُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ھَوٰئہُ وَکَانَ أَمْرُہٗ فُرُطًا ہالثلٰثۃ ۲۸} (سورۃ الکہف: ۲۸)
وفصل آخرون فقالوا: الإخفاء أفضل عند خوف الریا، والإظہار أفضل عند عدم خوفہ الخ۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’تفسیر سورۃ الأعراف: ۵۰‘‘؛ : ج ۵، ص: ۲۰۸، ) …عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما، کان یقول عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا دعا أحدکم أخاہ فلیجب عرساً کان أو نحوہ۔ (أخرجہ، مسلم في صحیحہ، ’’کتاب النکاح، باب الأمر بإجابۃ الداعي إلی دعوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۲، رقم: ۱۴۲۹)
قال بعض السلف وأما الأعذار التي یسقط بہا وجوب إجابۃ الدعوۃ أو ندبہا فمنہا أن یکون في الطعام شبہۃ أو یخص بہا الأغنیاء أو یکون من یتأذي بحضورہ معہ أو لا تلیق بہ مجالستہ أو یدعوہ لخوف شر أو لطمع في جانبہ الخ۔ (أخرجہ النووي، في شرح المسلم، ’’کتاب النکاح، باب الأمر بإجابۃ الداعي إلی دعوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص359