42 views
استنجا میں جن چیزوں کا استعمال جائز نہیں؟
(۲۶)سوال:کیا فرماتے ہیں علماء دین شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں:
کیا کتب فقہ میں کہیں مذکور ہے کہ کن کن چیزوں سے استنجاء کر نا درست نہیں ہے؟ براہ کرم مکمل مدلل جواب عنایت فر مائیں۔
فقط: والسلام
المستفتی: محمد سمیع اللہ، پٹنہ
asked Nov 26, 2023 in طہارت / وضو و غسل by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فقہ کی مختلف کتابوں میں لکھا ہے کہ درج ذیل اشیاء سے استنجا کرنا درست نہیں ہے، مثلاً: ہڈی کھانے کی چیزیں، لید اور تمام ناپاک چیزیں اور وہ ڈھیلا یاپتھر جس سے ایک مرتبہ استنجا ہو چکا ہو یعنی ناپاک ہو، پختہ اینٹ، شیشہ، کوئلہ، چونا، لوہا، چاندی، سونا وغیرہ اور ایسی چیزوں سے استنجا کرنا جو نجاست کو صاف نہ کریں، جیسے: سرکہ وغیرہ یا ایسی چیزیں جن کو جانور وغیرہ کھاتے ہوں، جیسے: بھوسہ اور گھاس وغیرہ،یا ایسی چیزیں جو قیمت والی ہوں، چاہے قیمت تھوڑی ہو یا زیادہ، جیسے: کپڑا،یعنی ایسا کپڑا جس کو اگر استنجا کے بعد دھویا جائے، تو اس کی قیمت میں کمی آجائے، جیسے: ریشم وغیرہ کا کپڑا، ان سے استنجا کر نا درست نہیں ہے۔ مزید تفصیلات فتاویٰ ہندیہ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔(۱)
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا تسنجو بالروث ولا بالعظام فإنہ زاد اخوانکم من الجن‘‘(۲)
اسی طرح آدمی کے اجزاء، جیسے: بال، ہڈی، گوشت، مسجد کی چٹائی یا کوڑا یا جھاڑو ،درختوں کے پتے، کاغذ چاہے لکھا ہو یا سادہ، زمزم کا پانی، بغیر اجازت دوسرے کے مال سے چاہے وہ پانی ہو یا کپڑا یا کوئی اور چیز، روئی اور تمام ایسی چیزیں جن سے انسان یا جانور نفع اٹھائیں،ایسی تمام چیزوں سے استنجا کرنا مکروہ ہے۔
’’یجوز في الاستنجاء استعمال الحجر: (وما قام مقامہ) أي ویجوز أیضاً بما قام مقام الحجر کالمدر والتراب والعود والخرقۃ والقطن والجلد ونحو ذلک‘‘(۳)
’’عن عائشۃ  رضي اللّٰہ عنہا ، قالت:  قدم سراقۃ بن مالک علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فسألہ عن التغوط، فأمرہ أن یستعلی الریح وأن یتنکب القبلۃ، ولا یستقبلہا ولا یستدبرہا، وأن یستنجی بثلاثۃ أحجار ولیس فیہا رجیع، أو ثلاثۃ أعواد، أو ثلاث حثیات من تراب‘‘(۴) ’’إن لماء زمزم حرمۃ فإن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مج في دلو زمزم ثم أمر بإفراغہ في بئر زمزم، فعن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما  قال: جاء النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلیٰ زمزم فنزعنا لہ دلواً، فشرب ثم مج فیہا، ثم أفرغناہازمزم، ثم قال: لولا أن تغلبوا علیہالنزعت بیدي‘‘(۱)
’’عن أنس بن مالک، قال: کان أبو ذر یحدث أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم  قال: فرج عن سقف بیتي وأنا بمکۃ، فنزل جبریل علیہ السلام ففرج صدري، ثم غسلہ بماء زمزم، ثم جاء بطست من ذہب ممتلئ حکمۃ وإیمانا، فأفرغہ في صدري، ثم أطبقہ، ثم أخذ بیدي، فعرج بي إلی السماء الدنیا، فلما جئت إلی السماء الدنیا، قال جبریل: لخازن السماء افتح، قال: من ہذا؟ قال ہذا جبریل۔۔۔۔۔۔الخ‘‘(۲)

 

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب التاسع: في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الثالث في الاستنجاء، صفۃ الاستنجاء بالماء‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۔
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الطہارۃ وسننہا، باب کراہیۃ الاستنجاء بالیمین‘‘: ج ۱، ص: ۱۰، رقم: ۱۸۔
(۳) بدر الدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’ما یجوز بہ الاستنجاء و ما لا یجوز‘‘: ج ۱، ص: ۷۴۹۔
(۴) أخرجہ البیہقي، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب ما ورد في الاستنجاء بالتراب‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۹، رقم: ۵۳۹۔
(۱) أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’الجزء الخامس ‘‘: ج ۵، ص: ۴۶۷۔(القاھرۃ، مؤسسۃ الرسالۃ، مصر)
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب کیف فرضت الصلاۃ في الإسراء‘‘: ج ۱، ص: ۵۰، رقم: ۳۴۹۔(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص113

answered Nov 26, 2023 by Darul Ifta
...