34 views
نیوز پیپر، اور میگزین وغیرہ سے استنجا کا حکم:
(۲۹)سوال:کیا فرماتے ہیں علماء دین مفتیان کرام:
نیوز پیپر، پرانا اخبار، یا میگزین، یا سادہ کاغذ وغیرہ سے استنجا کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ کیا عذر یا غیر عذر دونوں صورتوں میں استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے؟ اس سلسلے میں شریعت کیا رہنمائی کرتی ہے؟ مدلل تحریر فرمائیں نوازش ہوگی۔
فقط: والسلام
المستفتی: محمد صادق: سہارنپور
asked Nov 26, 2023 in طہارت / وضو و غسل by azhad1

1 Answer

الجواب وباللہ التوفیق:آج کل عام طور پر بڑے شہروں میں نیوز پیپر وغیرہ کا استنجا کے لیے استعمال بڑھتا جارہا ہے۔ ان چیزوں کو استنجا کے لیے استعمال کرنا نہایت ہی تکلیف دہ عمل ہے۔ صاحب البحر الرائق نے لکھا ہے: لکھے ہوئے کاغذ سے استنجا کرنا مکروہ ہے۔

’’والورق قیل: إنہ ورق الکتابۃ وقیل إنہ ورق الشجر وأي ذلک کان فإنہ مکروہ‘‘(۱)
اس لیے کہ کاغذ ایک گراں قدر چیز ہے جو علوم وفنون کی امین اور خود اسلام اور اس کی تعلیمات کے لئے بلند پایہ محافظ ہے، اس کی اس عظمت اور اہمیت کا تقاضا ہے کہ ایسے معمولی اور کمتر کاموں کے لیے اس کا استعمال نہ ہو اور اس کو نجاستوں میں ملوث ہونے سے بچایا جائے؛ البتہ  مجبوری کی حالت اس سے مستثنیٰ ہے۔ علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی کراہت کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:
’’لصقالتہ وتقومہ ولہ احترام أیضا لکونہ آلۃ لکتابۃ العلم‘‘(۲)
اس لیے کہ وہ چکنا ہوتا ہے (جس سے نجاست کے پھیل جانے کا اندیشہ ہے) اور قیمتی ہوتا ہے، نیز آلۂ علم ہونے کی وجہ سے قابلِ احترام بھی ہے۔
اس کی تائید ان فقہاء کے اقوال سے بھی ہوتی ہے جو مطلق کاغذ کے اس مقصد کے لئے استعمال کو مکروہ نہیں کہتے، بلکہ ایسے کاغذ کے استعمال سے منع کرتے ہیں جس میں حدیث وفقہ سے متعلق کچھ لکھا ہوا ہو، مشہور فقیہ ابن قدامہ نے اپنی کتاب المغنی میں لکھا ہے:
’’ولا یجوز الاستنجاء بمالہ حرمۃ کشيء کتب فیہ فقہ أو حدیث رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘(۳)
قابل احترام چیزیں مثلاً ایسی چیز کہ جس میں فقہ اور حدیث کی عبارتیں درج ہوں، ان سے استنجا کرنا جائز نہیں۔
 علامہ ابن عابدین لکھتے ہیں:
’’لا یجوز بما کتب علیہ شيء من العلم کالحدیث والفقہ‘‘ (۴)

البتہ ایسے کاغذ جو خاص استنجا کے مقصد کے لیے ہی تیار کئے جاتے ہیں اور وہ کاغذ اس قابل نہیں ہوتے ہیں کہ ان پر کچھ لکھا جائے، تو ان جیسے کاغذوں کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۱)

(۳) أخرجہ البیہقي، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب ما ورد في الاستنجاء بالتراب‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۹، رقم: ۵۳۹۔
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الاستنجاء‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۔
(۳) ابن قدامۃ، المغني، ’’فصل استجمر بحجر ثم غسلہ أو کسر‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۷۔(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۴) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس، مطلب إذا دخل المستنجي في ماء قلیل‘‘: ج ۱، ص: ۵۵۳۔
(۱)
خالد سیف اللہ رحمانی، جدیدفقہی مسائل: ج ۱، ص: ۸۵۔(کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص117

answered Nov 26, 2023 by Darul Ifta
...