73 views
(۳۰)سوال:(۱) دین دار مسلمانوں کے گھروں میں جو اٹیچ بیت الخلا ہوتے ہیں کیا وہاں لازما شیاطین بسیرا کرتے ہیں، جب کہ گھر میں آتے جاتے دعا کا اہتمام ہوتا ہو؟
(۲) کیا گھر میں داخل ہوتے وقت دعا پڑھنے پر ہمیشہ ساتھ رہنے والا شیطان بھی باہر رک جاتا ہے۔
(۳) بیت الخلا میں کپڑے ٹانگے رکھنے سے کیا شیاطین ان کپڑوں پر اور وہاں پڑے خواتین کے بالوں پر جادو کرتے ہیں؟
(۴) گھر میں میاں بیوی دونوں دین دار ہیں، بچے بھی حافظ قرآن ہیں، پابندی سے فضائل اعمال کی تعلیم بھی ہوتی ہے اور قرآن پاک کی تلاوت بھی؛ لیکن میاں بیوی میں نااتفاقی رہتی ہے اور ایک دوسرے کی صورت دیکھنا گوارا نہیں ہوتا، بات بات میں نااتفاقی اور جھگڑا ہوتا، یہ حال تقریباً بیس سال سے ہے، منزل اور سورۃ بقرہ کی تلاوت کے اہتمام کے باوجود یہ حال ہے۔ کیا اس کو یقینی جادو یا جنات کا عمل یا نظر بد سمجھا جائے۔
فقط: والسلام
المستفتی: محمد، ہاپوڑ
asked Nov 26, 2023 in طہارت / وضو و غسل by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قضاء حاجت کی جگہ شیاطین کا بسیرا ہوتا ہے اور دعا پڑھ کر بیت الخلا جانے سے آدمی شیطان کے وساوس سے محفوظ رہتا ہے اس لیے اگرگھر میں اٹیچ بیت الخلا ہو، تو بیت الخلاء میں شیطان کا بسیرا ہوسکتا ہے؛ لیکن اس کا اثر گھر پر نہیں پڑتا ہے اور جولوگ بیت ا لخلا دعا پڑھ کر جاتے ہیں وہ بھی شیطانی وساوس سے محفوظ رہتے ہیں۔

’’عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ قال: (إن ہذہ الحشوش محتضرۃ، فإذا دخلہا أحدکم فلیقل: اللہم إني أعوذ بک من  الخبث والخبائث)، فأخبر في ہذا الحدیث أن الحشوش مواطن للشیاطین، فلذلک أمر بالاستعاذۃ عند دخولہا،(۱) ومن ہذا قول رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إن ہذہ الحشوش محتضرۃ أي یصاب الناس فیہا وقد قیل إن ہذا أیضا قول اللّٰہ -عز وجل- {کل شرب محتضر} (سورۃ القمر: ۲۸) أي یصیب منہ صاحبہ۔ مالک عن یحیی بن سعید أنہ قال أسری برسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فرأی عفریتا من الجن یطلبہ بشعلۃ من نار کلما التفت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رآہ فقال لہ جبریل أفلا أعلمک کلمات تقولہن إذا قلتہن طفئت شعلتہ وخر لفیہ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بلی فقال جبریل فقل أعوذ بوجہ اللّٰہ الکریم وبکلمات اللّٰہ التامات اللاتی لا یجاوزہن بر ولا فاجر من شر ما ینزل من السماء وشر ما یعرج فیہا وشر ما ذرأ في الأرض وشر ما یخرج منہا ومن فتن اللیل والنہار ومن طوارق اللیل والنہار إلا طارقا یطرق بخیر یا رحمن‘‘(۲)
(۲) روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان گھر میں داخل ہوتے وقت دعا پڑھ لیتا ہے، تو اللہ تعالیٰ کے ضمان میں آجاتا ہے اور شیطان کہتا ہے کہ اب میں تمہارے ساتھ رات نہیں گزار سکتا لیکن جب آدمی بغیر دعا کے گھر میں داخل ہوتا ہے، تو شیطان کہتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ رات گزاروں گا؛ اس لیے گھر میں داخل ہوتے وقت دعا کا اہتمام کرنا چاہیے۔
’’وروینا عن أبي أمامۃ الباہلی، واسمہ صدي بن عجلان عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ثلاثۃ کلہم ضامن علی اللّٰہ عز وجل: رجل خرج غازیا في سبیل اللّٰہ عز وجل فہو ضامن علی اللّٰہ عز وجل حتی یتوفاہ فیدخلہ الجنۃ أو یردہ بما نال من أجر وغنیمۃ، ورجل راح إلی المسجد فہو ضامن علی اللّٰہ تعالی حتی یتوفاہ فیدخلہ الجنۃ أو یردہ بما نال من أجر وغنیمۃ، ورجل دخل بیتہ بسلام فہو ضامن علی اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ حدیث حسن، رواہ أبو داود بإسناد حسن، ورواہ آخرون۔ ومعنی ضامن علی اللّٰہ تعالیٰ: أي صاحب ضمان، والضمان: الرعایۃ للشيء، کما یقال: تامر، ولابن: أي صاحب تمر ولبن۔ فمعناہ: أنہ في رعایۃ اللّٰہ تعالٰی، وما أجزل ہذہ العطیۃ، اللہمَّ ارزقناہا‘‘۔
’’وروینا عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: سمعت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إذا دخل الرجل بیتہ فذکر اللّٰہ تعالٰی عند دخولہ وعند طعامہ قال الشیطان: لا مبیت لکم ولا عشاء، وإذا دخل فلم یذکر اللّٰہ تعالٰی عند دخولہ، قال الشیطان: أدرکتم المبیت، وإذا لم یذکر اللّٰہ تعالٰی عند طعامہ قال: أدرکتم المبیت والعشاء‘‘(۱)
(۳) بیت الخلا کے لٹکے کپڑے یا وہاں گرے خواتین کے با لوں پرشیطان کا جادو کرنا کوئی ضروری نہیں ہے؛ بلکہ جو لوگ اس طرح کا عمل کراتے ہیں وہ اس طرح کی چیزوں کو استعمال کرتے ہیں؛ اس لیے بہتر ہے کہ بال وغیرہ کو محفوظ مقام پر دفن کردیا جائے؛ لیکن شیطان کا ان بالوں پر تصرف کرنا کوئی ضروری نہیں ہے؛ اس لیے کہ شیطان، جنات اس کے بغیر بھی تصرف پر قادر ہو جاتے ہیں۔
(۴) میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی اگر رہتی ہے، تو ضروری نہیں کہ یہ جادو ہی کا اثر ہو، گھر میں حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب ؒ کی منزل، اسی طرح معوذتین اور سورہ بقرہ کا اہتمام کریں، اگر جادو وغیرہ کا کوئی اثر ہوگا، تو زائل ہوجائے گااور اگر اس کے بعد بھی نااتفاقی ختم نہ، تو بہتر  ہوگا کہ دونوں خاندانوں کے بزرگوں کے سامنے مسئلہ کو پیش کیا جائے وہ حضرات طرفین کی بات کو سن کر جو فیصلہ کریں اس پر دونوں حضرات عمل کریں ’’إن شاء اللّٰہ‘‘ نااتفاقی ختم ہوجائے گی۔
 

(۱) شرح صحیح البخاري لابن بطال: ج ۱۰، ص: ۹۰۔
(۲)  ابن عبدالبر، الاستذکار: ج ۸، ص: ۴۴۳۔
(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب ا لأذکار للنووي:ج ، ص: ۲۴، رقم: ۶۰۔(کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص119

answered Nov 26, 2023 by Darul Ifta
...