23 views
سرکاری تنخواہ پانے والے کی امامت:
(۳۹)سوال: ایک شخص سرکاری اسکول کا ٹیچر ہے وہ خارجی اوقات میں محلہ کے بچوں کو پڑھاتا بھی ہے اور ایک مسجد میں نماز بھی پڑھاتا ہے، مسئلہ دریافت کرنا ہے کہ سرکاری تنخواہ پانے والے کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ سرکاری تنخواہ پانے والے کی امامت درست نہیں ہے؟ کیا ان کا کہنا صحیح ہے؟ ’’بینوا وتوجروا‘‘۔
فقط: والسلام
المستفتی: محمد ہاشم، دلشاد نگر، بھوپال
asked Dec 13, 2023 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: اگر تمہیں یہ پسند ہے کہ تمہاری نماز درجہ مقبولیت کو پہونچے تو تم میں جو بہتر اور نیک ہو وہ تمہاری امامت کرے وہ تمہارے اور تمہارے پروردگار کے درمیان قاصد ہے۔
’’إن سرکم أن تقبل صلوتکم فلیؤ مکم خیار کم فإنھم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم، رواہ الطبراني وفي روایۃ الحاکم فلیؤ مکم خیارکم وسکت عنہ‘‘(۱)
دوسری حدیث میں ہے کہ: تم میں جو سب سے بہتر ہو ا س کو امام بناؤ کیوں کہ وہ تمہارے اور تمہارے پروردگار کے درمیان ایلچی ہے۔
فقہ کی مشہور کتاب نور الا یضاح میں ہے:
’’فالأعلم أحق بالإمامۃ ثم الأقرأ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن خلقاً ثم الأحسن وجھا ثم للأشرف نسباًثم الأحسن صوتا ثم الأنظف ثوباً‘‘(۲)
الحاصل: امامت کا زیادہ حق دار وہ شخص ہے جودین کے امور کا زیادہ جاننے والا ہو اگر  سرکاری ٹیچر دین کی سمجھ بوجھ رکھتا ہو اور ان سے کوئی بہتر نہ ہو تو ان کی امامت اور ان کی اقتداء میں پڑھی گئی نماز درست ہے، نیز امام صاحب ٹیچر کی ذمہ داریاں پوری کر کے تنخواہ لے رہے ہیں اس لیے ان کے لیے تنخواہ لینا جائز ہے اور ان کی اقتداء میں پڑھی گئی نماز بلا کراہت درست ہے۔
’’قال الفقیہ أبو اللیث رحمہ اللّٰہ تعالی: اختلف الناس في أخذ الجائزۃ من السلطان، قال بعضہم: یجوز ما لم یعلم أنہ یعطیہ من حرام، قال محمد رحمہ اللّٰہ تعالٰی: وبہ نأخذ ما لم نعرف شیئا حراما بعینہ، وہو قوْل أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالٰی وأصحابہ کذا في الظہیریۃ‘‘(۱)
’’وفي شرح حیل الخصاف لشمس الأئمۃ رحمہ اللّٰہ تعالٰی أن الشیخ أبا القاسم الحکیم کان یأخذ جائزۃ السلطان وکان یستقرض لجمیع حوائجہ وما یأخذ من الجائزۃ یقضی بہا دیونہ‘‘(۲)

(۱) أخرجہ الحاکم، في المستدرک علی الصحیحین: ج ۳، ص: ۲۲۲، رقم: ۷۷۷۔
(۲) الشرنبلالي، نور الایضاح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۸۳، ۸۴۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ، الثاني عشر في الہدایا والضیافات‘‘: ج ۵، ص: ۳۴۲۔
(۲) أیضاً۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص65

 

answered Dec 13, 2023 by Darul Ifta
...