الجواب وباللّٰہ التوفیق: یہ سمجھنا غلط ہے کہ حاکم کی موجودگی میں محکوم نماز نہیں پڑھا سکتا؛ لہٰذا استاذ کی موجودگی میں طالب علم کا امامت کرنا درست ہے۔ وہ باریش ہو تو زیادہ بہتر ہے استاذ کو مقدم کرنا چاہیے، لیکن استاذ ہی اپنے شاگرد کو آگے بڑھائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۱)
(۱) إذا لم یکن بین الحاضرین صاحب منزل ولا وظیفۃ ولا ذو سلطان فالأعلم أحق بالإمامۃ ثم الأقرأ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن خلقا ثم الأحسن وجہا ثم الأشرف نسبا ثم الأحسن صوتا ثم الأنظف ثوبا، فإن استووا یقرع أو الخیار إلی القوم، فإن اختلفوا فالعبرۃ بما اختارہ الأکثر وإن قدموا غیر الأولی فقد أساء وا۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في الأحق بالإمامۃ وترتیب الصفوف‘‘: ص: ۱۱۱،۱۱۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص105