الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر امام متعین ہے تو وہ نماز پڑھائے اور اگر مقرر نہیں ہے تو مقرر کرلیا جائے جو پابند شریعت اور امامت کے لائق ہو، امام کے مقرر نہ ہونے کی صورت میں زید سے امامت کرائیں، اس لیے کہ وہ اعلم بالسنۃ اور پابند شرع ہے۔ بکر تو ڈاڑھی بھی کٹاتا ہے اور ایک مشت سے کم رکھتا ہے اس لیے اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے، البتہ فرض ادا ہوجاتا ہے، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔(۱)
(۱) والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلوۃ فقط صحۃ وفساداً بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ، وحظہ قدر فرض ثم۔ الأحسن تلاوۃ وتجویداً للقراء ۃ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
إن سرکم أن تقبل صلوٰتکم فلیؤمکم خیارکم۔ (المعجم الکبیر للطبراني، ’’باب أما أسند مرثد بن أبي مرثد الغنوي‘‘: رقم: ۷۷۷)
وأما الأخذ منہا وہي دون ذلک کما فعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال فلم یبحہ أحد، وأخذ کلہا فعل یہود الہند ومجوس الأعاجم۔(ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصوم، باب مایفسد الصوم ومالایفسدہ، مطلب في الأخذ من اللحیۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۹۸)
صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ۔ قولہ: نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولیٰ من الإنفراد، لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج۲، ص: ۳۰۱، ۳۰۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص112