الجواب وباللّٰہ التوفیق: بدعت اور شرک دونوں الگ ہیں، دونوں میں بڑا فرق ہے، شرک کرنے والے کے پیچھے نماز نہیںہوگی؛ لیکن اگر کوئی گنہگار ہے خواہ گناہ کبیرہ کا مرتکب کیوں نہ ہو اور وہ بدعتی ہے تو ایسے شخص کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے؛ لیکن اگر نماز ان کے پیچھے پڑھی گئی تو فریضہ ادا ہوجائے گا اعادہ کی ضرورت نہیں ۔ اگر وہ تفسیر کی ایسی کتاب پڑھتا ہے جس میں مصنف نے تفسیر بالرائے کی ہو تو ایسی کتاب پڑھنی نہیں چاہئے اور اگر وہ تفسیر بالرائے کو صحیح مانتا ہے یا خود تفسیر بالرائے کرتا ہے تو ایسے شخص کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے، انگوٹھے چومنا، مسجد میں بلند آواز سے سلام پڑھنا بدعت اور خلاف سنت ہے۔(۱)
(۱) ولذا کرہ إمامۃ الفاسق والمبتدع بارتکابہ ما أحدث علی خلاف الحق المتلقي۔ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من علم أو عمل أو حال بنوع شبہۃ أو استحسان وروي محمد عن أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ وأبي یوسفؒ أن الصلاۃ خلف أہل الأہواء لاتجوز، والصحیح أنہا تصح مع الکراہۃ خلف من لا تکفرہ بدعتہ الخ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘ص: ۳۰۳، ۳۰۲، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
ویکرہ إمامۃ عبد … ومبتدع أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لابمعاندۃ بل بنوع شبہۃ۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۹، ۲۹۸، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص128