الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحت سوال اگر وہ امام بدعت میں شرک کی حد تک پہنچ گیا جیسے قبر کو سجدہ کرنا وغیرہ تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں اور اگر شرکیہ عقائد نہ ہوں تو نماز تو ہو جائے گی؛ لیکن مکروہ ہوگی اس لیے صورت مسئولہ میں اس بریلوی امام کے پیچھے نماز پڑھنا تنہا نماز پڑھنے کے مقابلہ بہتر ہے۔ تنہا نماز پڑھنے سے جماعت کی نماز افضل ہے اگرچہ کسی فاسق کے پیچھے ہو، اس سلسلے میں بڑی حکمت عملی سے کام لیا جانا چاہئے، آہستہ آہستہ سارے کام ٹھیک ہوتے ہیں جلد بازی کرکے مسجد چھوڑ دینا، کسی فساد و جھگڑے کا سبب بننا، عقلمندی کا تقاضا نہیں ہے، آپ کوشش کرتے رہیں ان شاء اللہ دیر سہی کامیابی ہوگی فی الحال فساد سے بچنا لازم ہے۔
’’ویکرہ إمامۃ عبد … ومبتدع أي صاحب بدعۃ وھي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول … لا یکفر بہا … وإن کفر بہا … فلا یصح الاقتداء بہ أصلاً … قولہ وہي اعتقاد عزا ہذا التعریف في ہامش الخزائن إلی الحافظ ابن حجر في شرح النخبۃ ولا یخفی أن الاعتقاد یشمل ما کان معہ عمل أولا؛ فإن من تدین بعمل لا بد أن یعتقدہ‘‘(۱)
’’وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ … قولہ نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولیٰ من الإنفراد لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث : من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي … أخرج الحاکم في مستدرکہ مرفوعاً: إن سرکم أن یقبل اللّٰہ صلاتکم فلیؤمکم خیارکم، فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ: مطلب البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸، ۲۹۹، زکریا دیوبند۔
(۲) أیضًا:ص: ۳۰۱۔
وحاصلہ إن کان ہوی لایکفر بہ صاحبہ تجوز الصلاۃ خلفہ مع الکراہۃ وإلا لا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إمامًا لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)، زکریا دیوبند۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص130