الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسا شخص گنہگار ہے، امامت کے لائق نہیں اس کی امامت مکروہ تحریمی ہوگی، دوسرے شخص کو امام بنانا چاہیے جو دین دار پرہیز گار اور باشرع ہو وہی امامت کے لائق ہے۔(۱)
(۱) ولذا کرہ إمامہ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ لإمامۃ، وإذا تعذر منعہ ینتقل عنہ إلی غیر مسجدہ للجمعۃ وغیرہا وإن لم یقم الجمعۃ إلا ہو تصلي معہ۔ (أحمد بن محمد،حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۲، ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)
ولوصلی خلف مبتدع أو فاسق فہو محرز ثواب الجماعۃ لکن لا ینال مثل ما ینال خلف تقي، کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوٰۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص152