الجواب وباللّٰہ التوفیق: لحنِ جلی سے پڑھنے کی صورت میں اگر کلمہ میں تغیر ہو تو نماز فاسد ہوجاتی ہے اور اگر لحن صرف حروف مدولین میں ہو تو نماز فاسد نہیں ہوتی ہے بشرطیکہ لحن جلی فاحش نہ ہو، جو نماز پڑھی گئی اور اس کی قرأت میں کسی کلمہ میںتغیر نہ ہو تو نماز آپ کی اور امام اوردوسرے مقتدی کی صحیح ہوجائے گی اس لیے جماعت ہی سے نماز پڑھا کریں۔(۱)
(۱) ومنہا القراء ۃ بالألحان إن غیر المعنی وإلا لا إلا في حرف مد ولین إذا فحش وإلا لا۔ بزازیۃ، (قولہ بالألحان) أي بالنغمات، وحاصلہا کما في الفتح إشباع الحرکات لمراعاۃ النغم (قولہ إن غیر المعنی) کما لو قرأ (الحمد للّٰہ رب العالمین) (الفاتحۃ:۲) وأشبع الحرکات حتی أتی بواو بعد الدال وبیاء بعد اللام والہاء وبألف بعد الراء، ومثلہ قول المبلغ رابنا لک الحامد بألف بعد الراء لأن الراب ہو زوج الأم کما في الصحاح والقاموس وابن الزوجۃ یسمی ربیبا۔ (قولہ: وإلا لا إلخ) أي وإن لم یغیر المعنی فلا فساد إلا في حرف مد ولین إن فحش فإنہ یفسد، وإن لم یغیر المعنی، وحروف المد واللین ہي حروف العلۃ الثلاثۃ الألف والواو والیاء إذا کانت ساکنۃ وقبلہا حرکۃ تجانسہا، فلو لم تجانسہا فہي حروف علۃ ولین لا مد۔ تتمۃ۔ فہم مما ذکرہ أن القراء ۃ بالألحان إذا لم تغیر الکلمۃ عن وضعہا ولم یحصل بہا تطویل الحروف حتی لا یصیر الحرف حرفین بل مجرد تحسین الصوت وتزیین القراء ۃ لا یضر، بل یستحب عندنا في الصلاۃ وخارجہا کذا فی التتارخانیۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج۲، ص: ۹۳، ۳۹۲)
والأحق بالإمامۃ) تقدیما بل نصبا مجمع الأنہر (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحۃ وفسادا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ) وحفظہ قدر فرض، وقیل واجب، وقیل سنۃ (ثم الأحسن تلاوۃ) وتجویدا (للقراء ۃ، ثم الأورع) أي الأکثر اتقاء للشبہات، والتقوی: اتقاء المحرمات۔ (قولہ: ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدا) أفاد بذلک أن معنی قولہم أقرأ: أي أجود، لا أکثرہم حفظا وإن جعلہ في البحر متبادرا) ومعنی الحسن في التلاوۃ أن یکون عالما بکیفیۃ الحروف والوقف وما یتعلق بہا قہستاني۔ لایجوز إمامۃ الألثغ الذي لا یقدر علی التکلم بعض الحروف إلا لمثلہ إذا لم یکن في القوم من یقدر علی التکلم بتلک الحروف، فأما إذا کان في القوم من یقدر علی التکلم بہا، فسدت صلاتہ وصلاۃ القوم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص218