الجواب وباللّٰہ التوفیق: بعض اوقات حرف کو گھٹانے یا بڑھانے سے معنیٰ میں فساد پیدا ہو جاتا ہے اور فسادِ معنی سے فسادِ نماز کا اندیشہ ہے، لہٰذا ایسے شخص کو امام صاحب کی غیر موجودگی میں امام نہیں بنانا چاہیے، بلکہ صحیح قرآن پڑھنے والے کو امام مقرر کرنا چاہیے جو قرآن کریم کے حروف کو قواعد کے مطابق صحیح ادائیگی کے ساتھ پڑھ سکے۔(۱)
نیز اگر نمازی میں اس امام سے بہتر کوئی قاری،حافظ اور عالم موجود ہوں تو مذکورہ شخص کے پیچھے نماز درست نہیں ہوگی اگر ان حضرات نے اس کے پیچھے نمازیں پڑھی ہیں تو وہ نماز واجب الاعادہ ہیں۔
البتہ مذکورہ شخص کو چاہئے کہ اس دوران قرآن کی تعلیم لیتا رہے اور حروف کی صحیح ادائیگی کی پوری کوشش کرتا رہے تو اس کے پیچھے ا س جیسا قرآن مجید پڑھنے والے مقتدیوں کی نماز تو درست ہو جائے گی تاہم صحیح پڑھنے والے عالم کا اس کے پیچھے نماز ادا کرنا درست نہیں ہے۔
’’في الدر المختار: (و) لا (غیر الالثغ بہ) أي بالألثغ (علی الأصح) کما في البحر عن المجتبیٰ، و حرر الحلبي وابن الشحنۃ أنہ بعد بذل جھدہ دائما حتما کالأمي فلا یؤم، إلا مثلہ‘‘
’’وفي الشامیۃ تحتہ: (قولہ ولا غیر الألثغ بہ) ھو بالثاء المثلثۃ بعد اللام من اللثغ بالتحریک … زاد في القاموس : أو من حرف إلی حرف … (قولہ فلا یؤم إلا مثلہ) یحتمل أن یراد المثلیۃ في مطلق اللثغ فیصح اقتداء من یبدل الراء المھملۃ غینا معجمۃ بمن یبد لھا لا ما۔ وفي الدر: واعلم أنہ (إذا فسد الاقتداء) بأي وجہ کان (لا یصح شروعہ في صلاۃ نفسہ)‘‘(۱)
’’في الدر المختار: ولا (حافظ آیۃ من القرآن بغیر حافظ لھا) وھو الأمي اھـ۔
’’وفي الشامیۃ تحتہ: (قولہ بغیر حافظ لھا) شمل من یحفظھا أو اکثر منھا لکن بلحن مفسد للمعنی لما في البحر: الأمي عندنا من لا یحسن القراء ۃ المفروضۃ اھـ‘‘(۲)
(۱) ظفر أحمد العثماني، إمداد الأحکام: ج ۲: ص: ۱۸۶۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في الألثغ‘‘: ج ۲، ص:۳۲۹-۳۲۷۔
(۲) أیضًا: ’’مطلب: الواجب کفایۃ ہل یسقط بفعل الصبي وحدہ‘‘: ج۲، ص: ۳۲۴؛ وکذا في مراقي الفلاح مع حاشیۃ للطحطاوي:ص: ۴۳۲۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص220