150 views
حائضہ عورت کے جھوٹے اور پسینے کا حکم؟
(۲۳)سوال:حضرت مفتی صاحب پوچھنا یہ ہے کہ: حائضہ عورت اگر کھانا کھا کر چھوڑ دے یا پانی پی کر چھوڑ دے، تو کیا اس کا جھوٹا پاک ہے؟ ایسے ہی ایک حا ئضہ عورت کو گر می کی شدت کی وجہ سے پسینہ نکلنے لگے اور اس کا شو ہر اس سے مس ہوجا ئے، تو کیا اس صورت میں حائضہ کے پسینہ لگنے سے اس کا شوہر ناپاک ہو جائے گا؟ اس بارے میں کیا احادیث وغیرہ مذکور ہیں؟ براہ کرم مکمل ومدلل جواب دے کر عند اللہ ماجور ہوں۔
فقط: والسلام
المستفتی: محمد علی جوہر، بستی
asked Dec 21, 2023 in طہارت / وضو و غسل by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جنابت، حیض ونفاس نجاست حکمی ہیں، جس کی وجہ سے جنبی، حائضہ وغیرہ کا ظاہری جسم ناپاک نہیں ہوتا اور نہ ہی جسم سے نکلنے والا پسینہ اور اس کا جھوٹا ناپاک ہوتا ہے؛ لہٰذا اگر جسم پر کوئی ظاہری نجاست نہ لگی ہو، تو حائضہ عورت کا پسینہ اور اس کا جھوٹا خواہ پانی ہو یا کھانا سب پاک ہے اور اگر حائضہ کے شوہر کو حائضہ کا پسینہ لگ جائے، تو اس کا شوہر بھی ناپاک نہیں ہوگا۔
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: لقینی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و أنا جنب، فأخذ بیدی، فمشیت معہ حتی قعد، فانسللت فأتیت الرحل فاغتسلت ثم جئت و ہو قاعد، فقال: أین کنت یا أبا ہریرۃ؟ فقلت لہ، فقال: سبحان اللّٰہ! یا أبا ہریرۃ! إن المؤمن لاینجس‘‘(۱)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ملے اس حال میں کہ میں جنبی تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا  یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے، میں چپکے سے وہاں سے نکلا اور اپنی رہائش پر آکر غسل کیا، پھر میں آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرماتھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) کہاں تھے؟ میں نے وجہ بتادی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سبحان اللّٰہ‘‘ مومن کا (ظاہری) جسم ناپاک نہیں ہوتا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اس میں اس کا جواز پایا جاتا ہے کہ غسل جنابت کو اس کے واجب ہونے کے اول وقت سے تاخیر کی جاسکتی ہے اوراس کا بھی جواز ہے کہ جنبی شخص (غسل سے پہلے بھی) اپنی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔(۱) لیکن افضل یہی ہے کہ جنبی کو غسلِ جنابت میں جلدی کرنی چاہئے۔
زمانہ جاہلیت اور خاص کر یہودیوں کے معاشرے میں عورت، ایامِ مخصوصہ میں بہت نجس چیز سمجھی جاتی تھی، اور ایامِ مخصوصہ میں اسے ایک کمرے میں بند کردیا جاتا تھا۔ نہ وہ کسی چیز کو ہاتھ لگا سکتی تھی، نہ کھانا پکاسکتی تھی اور نہ کسی سے مل سکتی تھی؛ لیکن اسلام کے معتدل نظام نے ایسی کوئی چیز باقی نہیں رکھی۔ شریعتِ اسلامیہ میں حیض ونفاس کی وجہ سے صادر ہونے والی ناپاکی میں عورت نماز روزہ، طوافِ کعبہ، مسجد میں جانے، مباشرت کرنے اور تلاوتِ کلامِ پاک کے علاوہ تمام امور انجام دے سکتی ہے۔ اس کے لیے باقی تمام امور جائز ہیں، یہاں تک کہ ذکراللہ اور دُرود شریف اور دیگر دُعائیں پڑھ سکتی ہے؛ لہٰذا حیض ونفاس کے دنوں میں عورت کے لیے کھانا پکانا، کپڑے دھونا اور دیگر گھریلو خدمات بجا لانا جائز ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ:
’’قال لي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ناولیني الخمرۃ من المسجد قالت: فقلت إني حائض، فقال إن حیضتک لیست في یدک‘‘(۲)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں سے مجھے فرمایا: مصلیٰ (جائے نماز) اٹھا کر مجھے دے دو، میں نے عرض کیا کہ میں حائضہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں تو نہیں ہے۔
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے بعض لوگوں کو مغالطہ ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو حالت حیض میں مسجد سے جائے نماز اٹھا کر لانے کا حکم فرمایا جب کہ ایسا نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں ہی تشریف فرما تھے اور جائے نماز گھر میں رکھی ہوئی تھی، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو حجرہ مبارک سے جائے نماز اٹھا کر دینے کو فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ میں تو حائضہ ہوں۔ اگلی حدیث مبارکہ سے اس بات کی وضاحت ہو رہی ہے:
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال بینما رسول: في المسجد، فقال: یا عائشۃ (رضياللّٰہ عنہا) ناولیني الثوب، فقالت: إني حائض، فقال: إن حیضتک لیست فی یدک فناولتہ‘‘(۱)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ! مجھے ایک کپڑا اٹھا کر دو، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا میں حائضہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں تو نہیں ہے۔
ان احادیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ ایامِ مخصوصہ میں عورت کا جھوٹاکھانا اور اس کا بچا ہوا پانی اور اس کا پسینہ پاک ہے۔

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الغسل: باب الجنب یخرج و یمشي في السوق و غیرہ‘‘: ج۱، ص: ۴۱، رقم: ۲۸۵۔
(۱) ابنِ حجر عسقلاني، فتح الباري، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۱۔(مکتبۃ شیخ الہند، دیوبند)
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الحیض: باب جواز غسل الحائض رأس زوجہا وترجیلہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۳، رقم: ۲۹۸۔
(۱) أیضاً: ج ۱، ص: ۲۴۵، رقم: ۲۹۹۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص397



 

answered Dec 21, 2023 by Darul Ifta
...