الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر نکاح پڑھانے والے امام صاحب کے علم میں نہیں تھا کہ عورت منکوحہ غیر مطلقہ ہے اور اس نے نکاح پڑھا دیا، تو وہ گنہگار نہیں ہوگا اس کی امامت درست ہے؛ لیکن جب اس کے علم میں آگیا تو اس پر ضروری ہے کہ اس بارے میں اعلان کر دے کہ وہ نکاح صحیح نہیں ہوا؛(۱) مسلمانوں پر ضروری ہے کہ ان دونوں مرد وعورت کو ملنے نہ دیں اور زنا کاری سے بچائیں۔(۲)
(۱) لا یجوز لرجل أن یتزوج زوجۃ غیرہ و کذلک المعتدۃ، کذا في السراج الوہاج۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب النکاح، القسم السادس: المحرمات التي یتعلق بھا حق الغیر‘‘: ج ۱، ص:۳۴۶؛ وابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب النکاح، باب المہر‘‘: ج ۴، ص: ۲۷۴)
(۲) من رأی منکم منکراً فلیغیرہ بیدہ فإن لم یستطع فبلسانہ فإن لم یستطع فبقلبہ وذلک أضعف الإیمان۔ (أخرجہ مسلم في سننہ، ’’کتاب الإیمان، باب بیان کون النہي عن المنکر من الإیمان‘‘: ج ۱، ص: ۵۱، رقم: ۴۹)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص278