29 views
معاشی ضروریات پوری کرنے کی  نیت سے امامت کرنے والے کا حکم:
(۲۵۴)سوال: جس امام نے صراحتاً لوگوں سے کہہ دیا کہ میں ثواب وغیرہ کی غرض سے امامت کی ذمہ داری نہیں نبھا رہا ہوں، بلکہ اپنی معاشی پریشانیوں کو دور کرنے کی غرض سے امامت کرتا ہوں کیا ایسے امام کی اقتداء کرنا درست ہے؟ کیا ان نمازوں کا لوٹانا ضروری ہے؟
فقط: والسلام
المستفتی: محمد شہاب الدین، بیگو سرائے
asked Dec 26, 2023 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اصل مذہب یہ ہے کہ کسی طاعت مقصودہ پر اجرت لینا جائز نہیں ہے، مگر جن طاعات میں دوام یا پابندی کی ضرورت ہے اور وہ شعار دین میں سے ہیں کہ ان کے بند کرنے یا بند ہونے سے اخلال دین لازم آتا ہو اور کوئی دلجمعی سے اپنے حالات کی وجہ سے انجام نہیں دے سکتا تو ایسے امور کومتأخرین فقہاء نے اس کلیہ سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔
پس امامت بھی اس میں سے ہے۔ اور امامت کی اجرت لینے پر بلاشبہ فتویٰ جواز کا ہے؛ اس لیے امام مذکورہ کا قول قابل گرفت نہیں اس کی امامت درست ہے اعادہ کی ضرورت نہیں۔(۱)

(۱) قال في الہدایۃ: وبعض مشائخنا استحسنوا الاستئجار علی تعلیم القرآن الیوم لظہور التواني في الأمور الدینیۃ ففي الامتناع تضییع حفظ القرآن وعلیہ الفتویٰ۔۔۔۔۔ وزاد في متن المجمع الإمامۃ، ومثلہ في متن الملتقی ودرر البحار۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب في الاستئجار علی الطاعات‘‘: ج ۹، ص: ۷۶)
ویفتی الیوم بالجواز أي بجواز أخذ الأجرۃ علی الإمامۃ وتعلیم القرآن والفقہ۔ (محمد بن سلیمان آفندي، مجمع الأنہر في شرح ملتقی الأبحر، ’’کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۸۴)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص280

answered Dec 26, 2023 by Darul Ifta
...