الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام ومؤذن کو اس طرح فی سبیل اللہ نماز پڑھانا جائز اور باعث اجر وثواب ہے؛ مگر اس صورت میں وہ کسی معاہدہ کے پابند نہیں ہوں گے؛ کیوں کہ وہ تنخواہ دار نہیں ہیں (تنخواہ نقد ہو یا بطور مصلانہ ہو) بعض دفعہ بوقت مصلانہ نزاع پیدا ہوتا ہے؛ لہٰذا ایسا اجارہ فاسد ہے، جائز نہیں ہے؛ پس مذکورہ امام اگر نماز فی سبیل اللہ پڑھاتے ہیں تو وہ آپ کی شرطوں کے شرعاً پابند نہیں ہیں؛ اس لیے اگر ان سے کوئی کمی بھی ہوجائے تو شرعاً ان سے مؤاخذہ نہ کیا جائے۔(۱)
(۱) ہذا وفي القنیۃ من باب الإمامۃ إمام یترک الإمامۃ لزیارۃ أقربائہ في الرساتیق أسبوعا أو نحوہ أو لمصیبۃ أو لاستراحۃ لا بأس بہ، ومثلہ عفو في العادۃ والشرع۔ اہـ۔ وہذا مبني علی القول بأن خروجہ أقل من خمسۃ عشر یوما بلا عذر شرعي لا یسقط معلومہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الوقف، فیما إذا قبض المعلوم وغاب قبل تمام السنۃ‘‘: ج ۶، ص:۶۳۰)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص281