الجواب وباللّٰہ التوفیق: امامت عبادت ہے اور عبادت پر اجرت فقہاء مقتدمین کے نزدیک ناجائز ہے؛ اس لیے کہ طاعت پر اجرت لینا درست نہیں ہے، لیکن حضرات متاخرین نے طاعت پر اجرت کو ضرورتاً جائز قرار دیا ہے، کیوں کہ پہلے بیت المال سے دینی خدمت گاروں کو وظیفہ دیا جاتا تھا، اب بیت المال اور اوقاف کے نظام ختم ہو جانے کی وجہ سے وظیفہ نہیں دیا جاتا ہے اب اگر دینی خدمت گاروں کو تنخواہ نہیں دی گئی تو جمعہ وجماعت کا نظام متاثر ہو جائے گا، اس لیے امام کی تنخواہ مقرر کرنا درست ہے، دین کی بقاء اور آبیاری اس سے ہوتی ہے، اس سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور تنخواہ لینے کی وجہ ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوتی ہے۔
’’إن المتقدمین منعوا أخذ الأجرۃ علی الطاعات وأفتی المتأخرون بجواز التعلیم والإمامۃ کان مذہب المتأخرین ہو المفتی بہ‘‘(۱)
’’ویفتی الیوم بصحتہا أي الإجارۃ علی تعلیم القرآن والفقہ والإمامۃ والأذان‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الوقف: مطلب في استحقاق القاضي والمدرس الوظیفۃ في یوم البطالۃ‘‘: ج۶، ص:۵۶۸۔
(۲) أیضًا:۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص288