الجواب وبا اللّٰہ التوفیق: امام کو مقررہ وقت پر حاضر رہنا ضروری ہے، منٹ، دو منٹ انتظار کرنے کی گنجائش ہے، اگر اس سے زائد کی تاخیر کرے، تو دوسرا شخص نماز پڑھادے اور امام تاخیر کی وجہ سے قصور وار ٹھرایا جائے گا، لیکن اگر کبھی کسی عذر کی وجہ سے تاخیر ہو جائے، تو قصور وار نہیں ہوگا۔(۳)
(۳) فلو انتظر قبل الصلاۃ ففي أذان البزازیۃ لو انتظر الإقامۃ لیدرک الفاسق الجماعۃ یجوز لواحد بعد الاجتماع لا إلا إذا کان داعراً شریراً … إن عرفہ وإلا فلا بأس بہ ولفظہ لا بأس تقید في الغالب أن ترکہ أفضل فالحاصل أن التأخیر القلیل لإعانۃ أہل الخیر غیر مکروہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۸)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص289