38 views
جس امام پر زکوۃ کے غبن کا الزام ہو:
(۲۶۸)سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین اور مفتیان کرام مسائل ذیل کے بارے میں:
دہلی کے ایک علاقہ کی جامع مسجد کا جو قضیہ چل رہا ہے وہ آپ کو معلوم ہے، فتویٰ آچکا ہے۔
مگر عوام الناس کی جہالت کی بنیاد پر ایک مرتبہ آپ حضرات کو دوبارہ زحمت دی جا رہی ہے کہ امام اور کمیٹی اور عوام الناس کے درمیان حکمیت قائم ہوسکے۔
در پیش مسائل بے چینی اور بے قراری کا سبب بنے ہوئے ہیں، مسجد کی کمیٹی والوں نے اس مسئلہ کو سلجھانے کے لیے دو عالموں کو مدعو کیا تاکہ بات کسی ٹھکانے لگے، اول عالم دین محمد شمیم صاحب امام مدینہ مسجد جعفرا آباد دہلی، دوم مجیب اللہ صالح امام پارلیمنٹ اسٹریٹ دہلی دونوں حضرات کی آمد ہوئی اور ان صاحبان کو دار العلوم وقف دیوبند یوپی اور مدرسہ امینیہ دہلی کا فتویٰ مطالعہ کے لیے دیا گیا دونوں حضرات نے مطالعہ کیا اب عوام الناس کے درمیان بحیثیت حکم مستحکم یہ کہا کہ امام صاحب نے توبہ کرلی ہے؛ لہٰذا اب یہ معاملہ ان کے اور اللہ کے درمیان ٹھہرا اور ان کی امامت درست ہے نماز ہو جائے گی۔
مگر عوام الناس میں سے کچھ افراد ایسے ہیں کہ جن کو تفشی نہ ہوئی ان کے کچھ اشکالات درج ذیل ہیں (۱) آیا اس طرح توبہ قابل اعتماد ہے یا نہیں؟ (۲) توبہ کی اصل حقیقت کیا ہے؟ (۳) قرآن وحدیث کے اعتبار سے ان کی امامت مکروہ تحریمی قرار پائی، تو اب اس صورت میں ان لوگوں کی نمازوں کا کیا ہوگا؟ (۴) اور اب لوگوں کی زکوٰۃ فطرات اور صدقات اور قربانی کی رقم کی ادائیگی کا کیا ہوگا؟ کیا خرد برد کرنے والے کو ان تمام رقومات کی ادائیگی کرنی ہوگی؟ (۵) قرآن وحدیث کی روشنی میں دئے گئے فتاویٰ کو جو حضرات نہ مانیں ان کے موافق عمل نہ کریں، تو ایسے لوگوں کے بارے میں شریعت مطہرہ کی کیا رائے ہے اور ان قاضیوں کے لیے کیا حکم ہے؟
فقط: والسلام
المستفتی: اہل اندر لوک
asked Dec 26, 2023 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: دوبارہ سوال نامہ بھی کسی ایک فریق کا معلوم ہوتا ہے، اگر یہ واقعہ صحیح ہے، تو دونوں فریق کے بیانات درج ہونے چاہئیں۔
دوسری بات: حکم اور فیصل طے کرنے سے پہلے آپسی رضامندی سے کسی کو حکم بنانا چاہیے تھا، پھر حکم کی بات کوقبول کرنی چاہئے، اگر ایسا نہیں ہوگا، تو کبھی بھی مسئلے کا حل نہیں نکل سکے گا، تیسری بات یہ کہ اب بھی واقعہ کی صداقت کی کوئی عملی دلیل نہیں ہے؛ اس لیے نفس واقعہ پر ہم کوئی رائے نہیں ظاہر کر سکتے ہیں، تاہم جو سوالات کیے گئے ہیں ان کے جوابات ذکر کیے جاتے ہیں۔
(۱) توبہ کی حقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اپنے گناہوں سے معافی طلب کرنا اور اطاعت پر جمنا ہے۔ توبہ کی حقیقت میں چار چیزیں داخل ہیں: (۱) گناہ پر دل میں ندامت ہو (۲) فوری طور پر گناہ کو ترک کرے (۳) اور پختہ ارادہ کرے کہ دو بارہ یہ گناہ نہیں کرے گا، چناںچہ علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں ’’ہي الندم بالقلب وترک المعصیۃ في الحال والعزم علی أن لا یعود إلی مثلہا وأن یکون ذلک حیاء من اللّٰہ‘‘(۱) (۴) اگر اس گناہ کا تعلق حقوق العباد سے یا حقوق اللہ سے اس کی تلافی کرنا۔ مثلاً اگر نماز چھوڑی ہیں، تو توبہ کے ساتھ ان نمازوں کی قضاء کرے تب توبہ کی تکمیل ہوگی۔(۲) اگر روزہ چھوڑا ہے، تو توبہ کے بعد روزے کی قضاء کرے تب توبہ کی تکمیل ہوگی۔ اسی طرح اگر اس گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہو، تو اس کی تلافی ہر حال میں کرے، مثلاً کسی کا مال لیا ہے، تو وہ مال واپس کرے، کسی کی غیبت کی ہے، تو محض توبہ سے غیبت کے گناہ معاف نہیں ہوں گے؛ بلکہ جس کی غیبت کی ہے اس سے معافی بھی مانگے، غرض کہ حقوق کی مکمل تلافی کرے اور جس کا جو حق ہے اس کو ادا کرے۔
(۲) جو امام خائن یا فاسق ہو، تو اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے،(۳) لیکن اگر اس نے نماز پڑھائی، تو نماز ہو گئی ان نمازوں کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ امام کے لیے امامت کرنا مکروہ ہے لیکن نماز ادا ہوجاتی ہے۔ نماز نیک اور فاسق ہر ایک کے پیچھے درست ہو جاتی ہے حدیث ’’صلو کل بر وفاجر‘‘(۴)
(۴) زکوٰۃ کے سلسلے میں جواب دے دیا گیا تھا اگر وصول کرنے والے نے زکوٰۃ کو اس کے مصرف میں استعمال نہیں کیا، تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی اور وصول کرنے والا اس کا ذمہ دار ہوگا۔(۵)
(۵) فتوی حکم شرعی کا نام ہے یعنی مفتی سوال کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کا حکم بتاتا ہے اس پر عمل کرنا اس کی دینی ذمہ داری ہوتی ہے۔

(۱) تفسیر قرطبي: ج ۵، ص: ۹۱۔

(۲) عن أنس بن مالک -رضی اللّٰہ عنہ- أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من نسي صلاۃ فلیصلہا إذا ذکرہا لا کفارۃ لہا إلا ذلک، قال قتادۃٰ: وأقم الصلاۃ لذکري۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ‘‘: ج ۱، ص:۵۸، رقم: ۶۸۴)

ما یقضی بین الناس یوم القیامۃ في الدماء وظواہر الحدیث دالۃ علی أن الذي یقع أولاً المحاسبۃ علی حقوق اللّٰہ تعالیٰ قبل حقوق العباد۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: ‘‘: ج ۲، ص: ۷)
(۳) ویکرہ تقدیم الفاسق أیضاً لتساہلہ في الأمور الدینیۃ فلا یؤمن من تقصیرہ في الإتیان بالشرائط۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیر، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۱۷، دار الکتاب)
(۴) ملا علي قاري، عمدۃ القاري شرح البخاري: ج ۱۱، ص: ۴۸۔
(۵) {اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْھَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُھُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِط فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیمٌہ۶۰} (سورۃ التوبہ: ۶۰)

توخذ من أغنیائہم فترد علی فقرائہم۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الزکاۃ، باب من لا تحل لہ الصدقۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۴، ص: ۲۲۴، رقم: ۱۷۷۲)
 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص292-293-294

answered Dec 26, 2023 by Darul Ifta
...