الجواب وباللہ التوفیق: وعظ و نصیحت اوردینی باتیں بتلانا بہت اچھا عمل ہے؛ لیکن اس کے لیے بھی مستحسن اور مفید طریقہ ہی کو اختیار کرنا چاہئے، مسجد میں روزانہ اس انداز پر وعظ کرنا درست نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے لوگوں کو نماز پڑھنے میں پریشانی اور خلل ہو نیز روزانہ کے اس انداز سے لوگ اُکتا جاتے ہیں اور پھر وعظ کا اثر بھی نہیں ہوتا، اس لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ کبھی کبھی وعظ کیا جائے اور اس کا خیال رکھا جائے کہ نمازوں میں خلل نہ پڑے نیز صلوٰۃ التسبیح وغیرہ اور دیگر نوافل کا اہتمام گھروں میں کرنا افضل ہے۔
’’صلوا أیہا الناس في بیوتکم فإن أفضل الصلاۃ صلاۃ المرء في بیتہ إلا المکتوبۃ‘‘(۱)
’’مثل البیت الذي یذکر اللّٰہ فیہ والبیت الذي لا یذکر فیہ مثل الحي والمیت‘‘(۱)
(۱) أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب صلوٰۃ اللیل‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۲، رقم: ۶۹۸۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ومسلم ’’کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب استحباب صلاۃ النافلۃ في بیتہ‘‘: ج۱، ص: ۲۶۵، رقم: ۷۷۹۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص295