37 views
اسلام علیکم؟
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس بارے میں کہ باہر ملک سے آنے والے خوراکی اشیاء جس پر یہ نہیں لکھا جاتا ہے کہ اس میں کون کون سا خوراکی اشیاء استعمال ھوا ھے اشیاء لکھنے کی بجائے وہ کوڈ لکھتے ہیں اور ُاس کوڈ کو ای کوڈ کھا جاتا ھیں جس کا ہمیں پتہ نہیں ہے کہ ِاس ای کوڈ سے ِاس کا کون سا خوراکی اشیاء مراد ھے برائے مہربانی ہمیں شریعت کی رو سے آگاہ فرمای جو ای کوڈ جس کھانے میں استعمال ھو وہ حرام ھیں یا مشکوک ہیں یا حلال ھے
asked Dec 26, 2023 in خوردونوش by Abdulrasheed

1 Answer

Ref. No. 2742/45-4281

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مارکیٹ میں موجود ملکی وغیرملکی مصنوعات کے بارے میں احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ استعمال کرنے سے پہلے ان کے مشمولات کو چیک کرلیاجائے، اگر شامل اشیاء واضح طور پر درج نہ ہوں بلکہ کوڈ کی شکل میں لکھی ہوں تو کوڈ کا مطلب نیٹ سے چیک کرلیا جائے اس سے معلوم ہوجائے گا۔ البتہ  یہ جان لینا چاہئے کہ تمام اشیاء خوردنی اصلا حلال  اور جائز ہیں جب تک کہ تحقیق کے ذریعہ کسی ناجائز یا ناپاک چیز کی آمیزش کا یقینی علم نہ ہوجائے۔اور جن چیزوں کے بارے میں شبہہ ہو ان سے بچنا بہرحال بہتر ہے ۔   

الأصل في الأشیاء الإباحۃ۔ (قواعد الفقہ اشرفي ۵۹)

من شک في إنائہ، أوثوبہ، أوبدنہ أصابتہ نجاسۃ أو لا، فہو طاہر مالم یستیقن، وکذا الآبار، والحیاض، والحباب الموضوعۃ في الطرقات، ویستقي منہا الصغار، والکبار، والمسلمون، والکفار، وکذا ما یتخذہ أہل الشرک، أوالجہلۃ من المسلمین کالسمن، والخبز، والأطعمۃ، والثیاب۔ (شامي، کتاب الطہارۃ، قبیل مطلب في أبحاث الغسل، زکریا۱/۲۸۳-۲۸۴، کراچي ۱/۱۵۱)

إن النجاسۃ لما استحالت وتبدلت أوصافہا، ومعانیہا خرجت عن کونہا نجاسۃ؛ لأنہا اسم لذات موصوفۃ فتنعدم بانعدام الوصف وصارت کالخمر إذا تخللت۔ (بدائع الصنائع، کتاب الطہارۃ، الدباغۃ، زکریا ۱/۲۴۳، کراچي۱/۸۵)

ثم اعلم أن العلۃ عند محمدؒ ہي التغیر وانقلاب الحقیقۃ، وإنہ یفتیٰ بہ للبلویٰ کما علم مما مرَّ، ومقتضاہ عدم اختصاص ذلک الحکم بالصابون فیدخل فیہ کل ما کان فیہ تغیر وانقلاب حقیقۃ، وکان فیہ بلویٰ عامۃ۔ (شامي، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، زکریا۱/۵۱۹، کراچي۱/۳۱۶)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Jan 2 by Darul Ifta
...