23 views
السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ ۔
کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس درجِ ذیل مسئلہ کے بارے میں ۔
میں نے سنا ہیں کہ نمازِ ظُہر کو سرمہ میں تعجیل کے ساتھ اور گرمہ میں تأخیر کے ساتھ اداء کرنا مستحب ہیں ؟ کیا یہ بات صحیح ہیں ؟۔ ذرا تفصیل سے جواب ارسال کریں ۔ جزاک اللہ خیراً کثیرا ۔۔
المستفتی : زکریا ملا ۔
مقام : کراڑ، مہاراشٹر ۔
السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ ۔9856
asked Dec 26, 2023 in نماز / جمعہ و عیدین by Zakriya Mulla

1 Answer

Ref. No. 2743/45-4280

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عبادات میں اصل یہ ہے کہ انہیں جلد از جلد ادا کیا جائے، البتہ کسی خاص صورت حال میں شریعت نے تاخیر کی اجازت دی ہے تو اس میں تاخیر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ صورتِ  مسئولہ میں گرمی کے موسم میں ظہر  کی نماز  میں تاخیر اس لیے افضل ہے کہ ظہر کا اول وقت عمومًا شدیدگرمی کا ہوتا ہے جس میں بہت ممکن ہے کہ جماعت میں شرکت کرنے والوں کی تعداد کم ہو؛ لہذا جماعت میں زیادہ لوگوں کی شرکت کے پیشِ نظر گرمی کے دنوں میں ظہر میں تاخیر کرنا افضل ہے۔ سردی کے موسم میں  چوں کہ ظہر کے اول وقت میں ایسی گرمی نہیں ہوتی جو تقلیل  جماعت کا سبب بنے ؛ لہذا ان مواقع پر تاخیر کرنا افضل نہیں ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ گرمیوں میں ظہر کی نماز میں تاخیر مستحب ہے اور سردیوں میں ظہر کی نماز میں تعجیل مستحب ہے۔

"ويستحب تأخير الظهر في الصيف وتعجيله في الشتاء. هكذا في الكافي سواء كان يصلي الظهر وحده أو بجماعة." (الھندیۃ كتاب الصلاة، الباب الأول في مواقيت الصلاة، الفصل الثالث في بيان الأوقات التي لا تجوز فيها الصلاة وتكره فيها، 52/1، ط: رشيدية)

"و تعقبهم الأتقاني في غاية البيان بأنه سهو منهم بتصريح أئمتنا باستحباب تأخير بعض الصلوات بلا اشتراط جماعة.

و أجاب في السراج بأن تصريحهم محمول على ما إذا تضمن التأخير فضيلة وإلا لم يكن له فائدة، فلا يكون مستحبا، وانتصر في البحر للأتقاني بما فيه نظر كما أوضحناه فيما علقناه عليه. والذي يؤيد كلام الشراح أن ما ذكره أئمتنا من استحباب الإسفار بالفجر والإبراد بظهر الصيف معلل بأن فيه تكثير الجماعة وتأخير العصر لاتساع وقت النوافل وتأخير العشاء لما فيه من قطع السمر المنهي عنه، وكل هذه العلل مفقودة في حق المسافر؛ لأنه في الغالب يصلي منفردا، ولا يتنفل بعد العصر، ويباح له السمر بعد العشاء كما سيأتي، فكان التعجيل في حقه أفضل وقولهم كتكثير الجماعة مثال للفضيلة لا حصر فيها." (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) 1 / 249)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Jan 2 by Darul Ifta
...