الجواب وباللّٰہ التوفیق: ختم قرآن پر لین دین کی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ پہلے سے لینا دینا مقرر کرلیا جائے یا مقرر تو صراحتا نہ کرے، لیکن اس جگہ پر لین دین کو لازمی و ضروری سمجھا جاتا ہو کہ اگر ایسا نہ ہوا رسوائی بدنامی اور لعن طن ہو تو ’’المعروف کا لمشروط‘‘ کے قاعدے کے مطابق یہ مقرر ہی کرنا ہوا، ایسی صورت میں یہ لین دین ہدیہ نہ ہوکر اجرت ہوجائے گی خواہ اس کا نام ہدیہ ہی رکھا جائے اور یہ لین دین شرعا ناجائز ہے اس کا مرتکب گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے اس کی امامت مکروہ ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ لین دین صراحتاً یا رواجا مقرر نہ ہو یا سنانے والا صراحتاً طے کردے کہ میں کچھ نہ لوں گا یا مقتدی صراحت کردے ایسی صورت میں اگر لین دین ہو تو واقعی ہدیہ تحفہ ہی ہے اور اس کے لین دین میں کوئی مضائقہ نہیں اور ایسی صورت میں لینے دینے والے کی امامت بھی بلاشبہ درست ہے۔(۱)
’’کذا صرح بہ العلامہ ابن العابدین في رد المحتار ورسم المفتي والفقہاء ٔالآخرون في الکتب الأخری‘‘
(۱) الہبۃ عقد مشروع لقولہ علیہ السلام تہادوا تحابّوا وعلی ذلک انعقد الإجماع۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الہبۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۸۳، مکتبہ فیصل دیوبند)
وقال في الشامي: أما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ الخ بل مشی في شرح المنیۃ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص299