الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کے بعد کتاب پڑھنا یا سننا ضروری نہیں ہے، اس لیے اس میں عدم شرکت کی بناء پر کوئی گناہ نہیں۔ تعلیم دین کے لیے نماز کے بعد کتاب پڑھی جاتی ہے۔ امام صاحب اپنے مقتدیوں کے معیارِ تعلیم اور ان کی ضرورت کو مد نظر رکھ کر کسی کتاب کا انتخاب کریں مشورہ بھی مقتدیوں سے کرلیں تو بہتر ہے۔ جس کتاب کا امام صاحب انتخاب کریں اس میں سب کو شریک ہونا چاہئے اگر کوئی کسی وجہ سے نہ بیٹھ سکے تو اس کو طعنہ دینا ہر گز جائز نہیں ہے اور صرف ان باتوں کی وجہ سے امام صاحب سے اختلاف ’’البغض في اللّٰہ‘‘ میں داخل نہیں، بغیر وجہ شرعی کے کسی عام انسان سے بغض رکھنا جائز نہیں، تو امام صاحب جو قابلِ عزت واحترام ہیں جو پیشوا ہیں ان سے کیسے درست ہوسکتا ہے؟ ہاں ایک نماز کے بعد امام صاحب کوئی کتاب تعلیم دین کے لیے پڑھیں اور دوسرے یا وہی لوگ دوسرے وقت دوسری کتاب حسب ضرورت پڑھیں اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہمیشہ کے لیے کسی ایک کتاب کو لازم سمجھ لینا بھی اصول تعلیم کے خلاف ہے۔(۱)
(۱) فإن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یطالب أحداً بشيء سوی ماذکرناہ وکذلک الخلفاء الراشدون ومن سواہم من الصحابۃ ومن بعدہم من الصدر الأول، (شرح المہذب، ج۱، ص: ۲۴)، دارالفکر۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص301