الجواب وباللہ التوفیق: صورت مذکورہ میں گاؤں والے اگر اس امام کی شرعی بناء پر مخالفت کرتے ہیں، تو اس کو چاہئے کہ امامت کو چھوڑ دے، کیوں کہ مشکوٰۃ شریف میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس امام سے نمازی کراہت کرتے ہوں اس کو امامت چھوڑ دینی چاہئے اور متولی عیدگاہ کو چاہئے کہ دیندار پرہیزگار امام متعین کریں۔لیکن اس کے الگ کرنے میں اگر فتنہ کا اندیشہ ہو، تو حسن تدبیر کے ساتھ ان کو ہٹانے کی کوشش کریں۔ اور جب تک وہ شخص امامت پر باقی رہے اس کی اقتداء میں نماز اداء کرتے رہیں اس کی امامت میں نماز بکراہت ادا ہوجاتی ہے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔(۱)
(۱) وعن ابن عمر -رضی اللّٰہ عنہما- قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ثلثۃ لاتقبل منہم صلوٰتہم من تقدم قوماً وہم لہ کارہون، ورجل أتی الصلاۃ دباراً والدبار أن یأتیہا بعد أن تفوتہ، ورجل اعتبد حجرۃ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، الفصل الثاني‘‘: ج۱، ص: ۱۰۰، رقم: ۱۱۲۳،یاسر ندیم دیوبند)
رجل أم قوما وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ، أولأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ ذلک وإن کان ہو أحق بالإمامۃ لایکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الامامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۴، زکریا دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص302