الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں بعض حفاظ اپنا قرآن کریم پورا کرنے کے بعد دوسری مسجد میں قرآن کریم سنانے والے حفاظ کو پریشان کرتے ہیں اور مقتدیوں کی نظر میں اس کو رسوا کرنے کے لیے کئی کئی حافظ جاکر پیچھے کھڑے ہوجاتے ہیں اور سب غلطیاں بتلاتے ہیں شرعاً ایسا کرنا درست نہیں ہے اور یہ صورت بظاہر فتنہ ہی کی ہے۔ بلکہ ایک سامع متعین ہو اگر وہ غلطی نہ بتلاسکے تو دوسرا شخص بتلاسکتا ہے۔ اور اگر ایسی کوئی نیت نہ ہو اور حفاظ کرام غلطی بتلادیں، تو ان کو فتنہ وغیرہ برے الفاظ سے خطاب نہ کیا جائے ایسے شخص وامام کو زبان کی حفاظت لازم ہے اور آئندہ ایسے طرز گفتگو سے پرہیز کیا جائے تو شرعاً امامت درست ہے اور چاہیے کہ توبہ کا اعلان کردے۔(۱)
(۱) {وَالَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اکْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُھْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِیْنًاہع ۵۸}(سورۃ الاحزاب: ۵۸)
وعن أبي موسی ما أحد أصبر علی أذی یسمعہ من اللّٰہ یدعون لہ الولد ثم یعافیہم ویرزقہم، متفق علیہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان، الفصل الأول‘‘: ج۱، ص: ۱۳، رقم: ۲۳)
وعن أبي ہریرۃ -رضي اللّٰہ عنہ- قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ، والمؤمن من أمنہ الناس علی دمائہم وأموالہم، رواہ الترمذي۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان، الفصل الأول‘‘: ج۱، ص: ۳، رقم: ۵،مکتبہ یاسر ندیم دیوبند)
أخرج الحاکم في مستدرکہ مرفوعاً إن سرکم أن یقبل اللّٰہ صلاتکم فلیؤمکم خیارکم فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۳۰۱، زکریا دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص304