الجواب و باللّٰہ التوفیق: شریعت میں قمری تاریخ کا اعتبار ہوتا ہے اور بالغ لڑکے کی امامت درست ہے۔ لڑکا پندرہ سال سے پہلے علامات بلوغ کے پائے جانے سے بالغ ہوسکتا ہے اور اگر کوئی علامت نہ ہو، تو پندرہ سال میں بالغ ہوجاتا ہے؛ لہٰذا مذکورہ شخص کا امام بننا بلا کراہت درست ہے۔
’’عن ابن عمر، قال: عرضني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوم أحد في القتال، وأنا ابن أربع عشرۃ سنۃ، فلم یجزني، وعرضني یوم الخندق، وأنا ابن خمس عشرۃ سنۃ، فأجازني، قال نافع: فقدمت علی عمر بن عبد العزیز وہو یومئذ خلیفۃ، فحدثتہ ہذا الحدیث، فقال: إن ہذا لحد بین الصغیر والکبیر، فکتب إلی عمالہ أن یفرضوا لمن کان ابن خمس عشرۃ سنۃ، ومن کان دون ذلک فاجعلوہ في العیال،(۱) و السن الذي یحکم ببلوغ الغلام و الجاریۃ إذا انتہیا إلیہ خمس عشرۃ سنۃ عند أبي یوسف و محمد، وہو روایۃ عن أبي حنیفہ و علیہ الفتوی‘‘(۲)
(۱) أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب الإمارۃ: باب سن البلوغ‘‘: ج۲، ص: ۱۳۰، رقم: ۱۸۶۸، کتب خانہ نعیمیۃ دیوبند۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الحجر: الفصل الثاني في معرفۃ حد البلوغ‘‘: ج ۵، ص: ۶۱۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص306