الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس شخص کی کل آمدنی یا اکثر آمدنی حرام ہو اور وہ اسی مال حرام سے دعوت کرتا ہو تو اس کے یہاں دعوت کھانا جائز نہیں ہے نہ ہی امام کے لیے جائز ہے او رنہ ہی کسی اور شخص کے لیے جائز ہے۔ایسے شخص سے امام کی تنخواہ کے لیے یا مسجد کی کسی ضرورت کے لیے چندہ لینا بھی جائز نہیں ہے۔ اگر اس کے پاس مال حرام کے علاوہ مال حلال بھی ہو اور وہ اسی مال سے دعوت کرے تو اس کا قبول کرنا جائز ہے۔یہ مسئلہ عوام کو حکمت و مصلحت کے ساتھ سمجھانے کی ضرورت ہے۔ سوال میں جو صورت حال ذکر کی گئی ہے اس کا ایک حل یہ ہے کہ کسی کے یہاں دعوت کی باری نہ لگائی جائے؛ بلکہ امام کو کھانے کا پیسہ دیا جائے جس سے وہ خود اپنے کھانے کا نظم کرے اس صورت میں کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہوگا؛نیز گھر گھر جاکر کھانا کھانا یالانا منصب امامت کے مناسب بھی نہیں ہے؛ لیکن اگراس صورت حال پر عمل ممکن نہ ہو تو خالص مال حرام والے شخص کی دعوت سے حکمت ومصلحت کے ساتھ عذر کردیا جائے اور اگر منع کرنے میں فتنہ کا اندیشہ ہو توامام صاحب کی ذمہ داری ہے کہ اس کا کھانا لے کر کسی غریب کو کھلادے اور مال حلال سے اپنا انتظام کرے۔
’’أھدی إلی رجل شیئا أو أضافہ إن کان غالب مالہ من الحلال فلا بأس إلا أن یعلم بأنہ حرام، فإن کان الغالب ھو الحرام ینبغي أن لا یقبل الھدیۃ ولا یأکل الطعام إلا أن یخبرہ بأنہ حلال ورثتہ أو استقرضتہ من رجل کذا في الینابیع۔ ولا یجوز قبول ھدیۃ أمراء الجور لأن الغالب في مالھم الحرمۃ إلا إذا علم أن أکثر مالہ حلال بأن کان صاحب تجارۃ أو زرع فلا بأس بہ؛لأن أموال الناس لا تخلو عن قلیل حرام فالمعتبر الغالب، وکذا أکل طعامھم‘‘(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الکراھیۃ: الباب الثاني عشر في الھدایا والضیافات‘‘: ج۵، ص: ۳۴۲، ط مکتبۃ زکریا دیوبند
وفي عیون المسائل: رجل أہدی إلی إنسان أو أضافہ إن کان غالب مالہ حرام لا ینبغي أن یقبل ویأکل من طعامہ ما لم یخبر أن ذلک المال حلال استقرضہ أو ورثہ وإن کان غالب مالہ من حلال فلا بأس بأن یقبل ما لم یتبین لہ أن ذلک من الحرام، وہذا لأن أموال الناس لا یخلو عن قلیل حرام وتخلو عن کثیرۃ فیعتبر الغالب ویبقی الحکم علیہ۔ (المحیط البرہاني، ’’الفصل السابع: في الہدایا والضیافات‘‘: ج ۵، ص: ۳۶۷، دارالکتاب دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص309