22 views
طالب علم کے لیے امامت کا وظیفہ لینا جائز ہے یا نہیں؟
(۲۹۹)سوال: عبداللہ طالب علم ہے اور نماز بھی پڑھاتا ہے، مدرسہ سے ۳؍ کلومیٹر دور دوسری بستی میں جاکر، کیا اس کے لیے امامت کے پیسے لینا جائز ہے، اس بستی میں جو دوسری مسجدیں ہیں ان مسجدوں میں امام کی تنخواہ چھ ہزار روپیہ ہے اور اس طالب علم کو پانچ سو روپیہ دے رہے ہیں، کیا طالب علم کا حق مقتدی ادا کر رہے ہیں، مقتدی قیامت کے دن حقوق العباد ادا کرنے والے ہوںگے یا نہیں؟
فقط: والسلام
المستفتی: عبدالجبار، مادھو گنج
asked Dec 27, 2023 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امامت کی اجرت وہ ہے جو ذمہ دار مقتدی اور امام کے درمیان طے ہو جائے جب باہم رضامندی سے کچھ طے ہوگیا تو پھر مقتدیوں سے کوئی مواخذہ نہیں ہے تاہم مقتدیوں کو امام کی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر بہتر سے بہتر مشاہرہ دینا چاہئے؛ نیز طالب علم کے لئے امامت کا وظیفہ لینا جائز ہے۔(۱)
(۱) قد یقال: إن کان قصدہ وجہ اللّٰہ تعالٰی لکنہ بمراعاتہ للأوقات والاشتغال بہ یقل اکتسابہ عما یکفیہ لنفسہ وعیالہ، فیأخذ الأجرۃ لئلا لیمنعہ الاکتساب عن إقامۃ ہذہ الوظیفۃ الشریفۃ، ولولا ذلک لم یأخذ أجرا فلہ الثواب المذکور بل یکون جمع بین عبادتین وہما الأذان والسعي علی العیال وإنما الأعمال بالنیات۔۔۔۔ وبعض مشایخنا استحسنوا الاستیجار علی تعلیم القرآن الیوم لأنہ ظہر التواني في الأمور الدینیۃ ففي الامتناع تضییع حفظ القرآن وعلیہ الفتوی۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج۲، ص: ۶۰)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص322

 

answered Dec 27, 2023 by Darul Ifta
...