الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ فی السوال صورت میں جو رقم امام کو تنخواہ میں دی جاتی ہے اگر وہ یقنی طور پر سود کی رقم ہے۔ تو دینے والوں کے لیے وہ رقم امام صاحب کو دینی جائز نہیں ہے۔(۱) البتہ اگر امام صاحب مستحق زکوٰۃ ہیں اور بہت غریب ہیں تو ان کے لیے بینک کی سودی رقم لینا جائز ہے تاہم اس سے تنخواہ ادا نہیں ہوگی۔ مسجد والوں پر لازم ہے کہ امام صاحب کے لیے محلہ والوں سے چندہ کرکے ان کی تنخواہ ادا کریں ورنہ سخت گنہگار ہوں گے اور آخرت میں جواب دہ ہوگے، تنخواہ امام صاحب کا حق ہے۔(۲)
(۱) ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم وإلا تصدقوا بہا لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ، فصل في البیع‘‘: ج۹، ص: ۶۲۵)
والحاصل أنہ إن علم أرباب الأموال وجب ردہ علیہم وإلا فإن علم عین الحرام لایحل لہ ویتصدق بہ بنیۃ صاحبہ۔ (أیضًا:)
(۲) عن أبي ہریرۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: قال اللّٰہ تعالیٰ: ثلاثۃ أنا خصمہم یوم القیامۃ رجل أعطي بي ثم غدر ورجل باع حرا فأکل ثمنہ ورجل استاجر أجیرا فاستوفی منہ ولم یعط أجرہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب البیوع، باب إثم من باع حرا‘‘: ج۲، ص: ۶۸۲، رقم: ۲۲۲۷)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص329