الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام کی عزت اور احترام کے پیش نظر تو یہ ہونا چاہئے کہ اگر بغیر شرعی ثبوت کے کوئی بھی الزام تراشی کرے تو حتی الامکان اس کے دفعیہ کی پوری کوشش کریں چہ جائیکہ خود متولی بھی اپنے امام پر الزام لگائیں اور بلا ثبوت شرعی الزام تراشی کریں جب کہ ایسا کرنے والے خود بھی گناہگار ہیں اور ان کے ساتھ لگنے والے بھی گناہگار ہوں گے، حالاں کہ ایسی الزام تراشیوں سے پرہیز ہر مسلمان کا فرض ہے برآں مزید کہ امام صاحب معافی بھی مانگ رہے ہیں پھر بھی کس قدر سخت دل ہیں وہ حضرات کہ غلطی (اگر بالفرض ہو گئی ہو) کو معاف نہیں کرتے اور (۱) مذکورہ صورت میں امام صاحب کی بات کو صحیح مانا جائے گا ان کی امامت درست اور جائز ہوگی اس میں شک نہ کیا جائے، قانون شریعت کے تسلیم کرنے میں ہی ہماری نجات ہے۔
(۱) {وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِط وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَہج ۱۳۴} (سورۃ آل عمران: ۱۳۴)
متولی المسجد لیس لہ أن یحمل سراج المسجد إلی بیتہ ولہ أن یحملہ من البیت إلی المسجد، کذا في فتاویٰ
قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الوقف، الباب الحادي عشر: في المسجد ومایتعلق بہ، الفصل الثاني في الوقف وتصرف القیم وغیرہ‘‘: ج۲، ص: ۴۱۲)
ولا تجوز إعارۃ أدواتہ لمسجد آخر ۱ھـ۔ (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، ص: ۴۷۱) (أیضًا:)
ولا تجوز إعارۃ الوقف والإسکان فیہ کذا في المحیط السرخسي، ۱ہـ ، (أیضًا:)
متولي المسجد لیس لہ أن یحمل سراج المسجد إلی بیتہ ولہ أن یحملہ من البیت إلی المسجد، کذا في فتاویٰ قاضي خان ۱ہـ، (أیضًا:)
ولا تجوز إجارۃ الوقف إلا بأجر المثل، کذا في المحیط السرخسي، (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الوقف، الفصل الثاني في الوقف وتصرف القیم، وغیرہ في مال الوقف علیہ‘‘: ج۲، ص: ۴۱۲)۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص330