الجواب وبا للّٰہ التوفیق: ہر مقررہ امام کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ محراب سنائے اور اگر امام صاحب اپنی کسی ذاتی مجبوری کی وجہ سے تراویح میں قرآن پاک نہیں پڑھ سکتے تھے تو ان کو مطعون کرنے والے یا ان کے خلاف اس سلسلہ میں آواز اٹھانے والے اور فتنہ برپا کرنے والے سخت غلطی پر ہیں اور فتنہ پردازی کی وجہ سے گنہگار بھی ہوتے ہیں اور ضروری ہے کہ ایسی حرکت سے باز آئیں۔ اور صورت مسئول عنہا میں امام مذکور کی امامت بلا شبہ بلا کراہت جائز و درست ہے۔(۱)
(۱) ولو أم قوما وہم لہ کارہون، إن) الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک تحریما؛ لحدیث أبي داؤد: لا یقبل اللّٰہ صلاۃ من تقدم قوما وہم لہ کارہون، (وإن ہو أحق لا)، والکراہۃ علیہم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۷)
رجل أم قوما وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک، وإن کان ہو أحق بالإمامۃ لا یکرہ، ہکذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘:ج۱، ص: ۸۷)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص331