الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ مسجد مدرسہ کی ہے، اس کا نظم مدرسہ سے متعلق ہے لہٰذا اس مسجد میں جو بھی آمدنی ہوگی وہ مدرسہ میں جمع ہوگی اور مدرسہ والے اس کو جس طرح مناسب سمجھیں ضروریات مسجد پر صرف کریں۔ ذمہ داروں کو چاہے کہ امامت و اذان کہنے کے لیے اشخاص مقرر کرکے تنخواہ دی جائے تاکہ جماعت و اذان کے نظم میں خلل نہ پڑے۔(۲)
(۲) لا یجوز الاستیجار علی الأذان والحج وکذا الإمامۃ وتعلیم القرآن والفقہ والأصل أن کل طاعۃ یختص بہا المسلم لا یجوز الاستیجار علیہ عندنا۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ‘‘: ج ۳، ص: ۲۳۸)
قال ابن المنذر: ثبت أن رسول اللّٰہ قال لعثمان بن أبي العاص واتخذوا مؤذناً لا یأخذ علی أذانہ أجرأ وأخرج ابن حبان عن یحیی البکالی قال سمعت رجلا قال لإبن عمر إني لأحبک في اللّٰہ قال لہ ابن عمر إني لأبغضک فی اللّٰہ فقال سبحان اللّٰہ أحبک فی اللّٰہ وتبغضی فی اللّٰہ قال نعم إنک تسئل علی أذانک أجرا وروي عن ابن مسعود انہ قال أربع لا یوخذ علیہن أجر الأذان و قرأۃ القرآن والمقاسم والقضاء۔ (نیل الأوطار، ’’باب النہي عن أخذ الأجرۃ علی الأذان‘‘: ج۱، ص: ۳۷۵)
(إن أحق ما أخذتم علیہ أجرا کتاب اللّٰہ) (أخرجہ البخاري في صحیحہ، کتاب الإجارۃ، باب ما یعطي في الرقیۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۰۴)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص333