48 views
امام کو برا بھلا کہنے کے بعد اس کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم:
(۳۱۵)سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں:
ہماری بستی میں جامع مسجد کے امام صاحب کو اسی بستی کے کچھ لوگ برے القاب سے پکارتے ہیں ان کے پیچھے ان کی برائی کرتے ہیں پھر یہی لوگ ان کے پیچھے نماز بھی ادا کرتے ہیں، امام صاحب کے پیچھے ان لوگوں کی ادا کی گئی نماز درست ہوگی یا نہیں؟ اس سلسلے میں شریعت مطہرہ ان
لوگوں کے بارے میں کیا حکم دیتی ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
فقط: والسلام
المستفتی: محمد رفیق السلام، آسام
asked Dec 28, 2023 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللہ التوفیق: بلاوجہ اور بغیر شرعی ثبوت کے کسی کو برا بھلا کہنا درست نہیں ہے، برا بھلا کہنے والا گنہگار ہوگا جب کہ اسلام اور مسلم معاشرہ میں امام اور امامت ایک معزز منصب ہے اس پر فائز رہنے والے حضرات عام وخاص ہر طبقہ میں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، وہ مسلمانوں کے مقتدیٰ اور پیشوا ہوتے ہیں، اس لیے جن لوگوں نے امام صاحب کو برا کہا ہے ان کو چاہئے کہ اللہ سے توبہ کریں اور امام صاحب سے معافی مانگیں کیوں کہ دین کے جاننے والے کی اہانت سے سلبِ ایمان کا بھی اندیشہ ہے؛ لہٰذا اس سے مکمل اجتناب ضروری ہے، البتہ برا کہنے والے لوگوں کی نماز اس امام کے پیچھے ادا ہو گئی اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔
’’وفي النصاب: من أبغض عالماً بغیر سبب ظاہر خیف علیہ الکفر۔ وفي نسخۃ الخسرواني: رجل یجلس علی مکان مرتفع ویسألون منہ مسائل بطریق الاستہزاء، وہم یضربونہ بالوسائد ویضحکون یکفرون جمیعاً‘‘(۱)
’’(وإمام قوم) أي: الإمامۃ الکبری، أو إمامۃ الصلاۃ (وہم لہ): وفي نسخۃ: لہا، أي الإمامۃ (کارہون) أي: لمعنی مذموم فی الشرع، وإن کرہوا لخلاف ذلک، فالعیب علیہم ولا کراہۃ، قال ابن الملک: أي کارہون لبدعتہ أو فسقہ أو جہلہ، أما إذا کان بینہ وبینہم کراہۃ وعداوۃ بسبب أمر دنیوي، فلا یکون لہ ہذا الحکم۔ في شرح السنۃ قیل: المراد إمام ظالم، وأما من أقام السنۃ فاللوم علی من کرہہ، وقیل: ہو إمام الصلاۃ ولیس من أہلہا، فیتغلب فإن کان مستحقاً لہا فاللوم علی من کرہہ، قال أحمد: إذا کرہہ واحد أو اثنان أو ثلاثۃ، فلہ أن یصلي بہم حتی یکرہہ أکثر الجماعۃ‘‘(۲)
’’(من تقدم) أي للإمامۃ الصغری أو الکبری (قوماً): وہو في الأصل مصدر قام فوصف بہ، ثم غلب علی الرجال (وہم لہ کارہون) أي لمذموم شرعي، أما إذا کرہہ البعض فالعبرۃ بالعالم ولو انفرد، وقیل: العبرۃ بالأکثر، ورجحہ ابن حجر، ولعلہ محمول علی أکثر العلماء إذا وجدوا، وإلا فلا عبرۃ بکثرۃ الجاہلین، قال تعالی: {وَلٰکِنَّ أَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ}(۳)
’’(ولو أم قوماً وہم لہ کارہون، إن) الکراہۃ (لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ) لہ ذلک تحریماً؛ لحدیث أبی داود: لا یقبل اللہ صلاۃ من تقدم قوماً وہم لہ کارہون‘‘ (وإن ہو أحق لا)، والکراہۃ علیہم‘‘(۱)
’’رجل أم قوماً وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک، وإن کان ہو أحق بالإمامۃ لا یکرہ۔ ہکذا في المحیط‘‘(۲)

(۱) لسان الحکام: ص: ۴۱۵۔
(۲) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۷۹۔
(۳) سورۃ الأنعام: ۳۷؛ وفیہ أیضاً: ج ۳، ص: ۸۶۶۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۷۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۴۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص337

 

answered Dec 28, 2023 by Darul Ifta
...