الجواب وباللّٰہ التوفیق: ذمہ داران مسجد اور امام صاحب کے درمیان جو ذمہ داریاں امام نے خوشی سے قبول کرلی ہیں اور وعدہ کر لیا کہ ان فرائض کو پورا کروں گا تو ان کا امام صاحب کے ذمہ پورا کرنا ضروری ہے تب ہی وہ تنخواہ کا مستحق ہوگا۔(۱)
اور جن باتوں کو طے نہیں کیا گیا ان کو کرنا امام صاحب کے ذمہ ضروری نہیں ہے، اگر امام صاحب وہ کام کر دیں تو ان کا احسان اور تبرع ہے اور اس کا اجر وثواب اس کو ملے گا، اس صورت میں صرف امامت اس کی ذمہ داری ہوگی۔ بہتر یہ ہے کہ امام کو صرف امامت کے عہدے پر تقرر کیا جائے اور دیگر کاموں کے لیے دوسرا آدمی رکھ لیا جائے، کیوں کہ منصب عظیم ہے، اس کا بھی خیال رکھا جانا چاہئے(۲) اگر امام مذکورہ کام کرے، تو اس کی امامت درست ہے۔(۳)
(۱) والثاني وہو الأجیر الخاص ویسمیٰ أجیر وحد وہو من یعمل لواحد عملاً موقتاً بالتخصیص ویستحق الأجر بتسلیم نفسہ في المدۃ وإن لم یعمل الخ۔ اعلم أن الأخیر للخدمۃ أو لرعی الغنم إنما یکون یکون أجبراً خاصاً إذا شرط علیہ أن لا یخدم غیرہ أو لا یرعیٰ لغیرہ أو ذکر المدۃ أولا نحو أن یستأجر راعیاً شہراً لیرعیٰ لہ غنماً مسماۃ بأجر معلوم فإنہ أجیر خاص بأول الکلام۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الوقف، مطلب لیس للأجیر الخاص أن یصلي النافلۃ‘‘: ج۹، ص: ۹۴)
(۲) لأن مبنی الإمامۃ علی الفضیلۃ، ولہذا کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یؤم غیرہ ولا یؤمہ غیرہ وکذا کل واحد من الخلفاء الراشدین رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہم فی عصرہ۔ (الکاسانی، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: باب بیان من یصلح للإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۶، زکریا دیوبند)
(۳) فرع: أراد رب الغنم أن یزید فیہا ما یطیق الراعي لہ ذلک لو خاصاً لأنہ في حق الرعي بمنزلۃ العبد ولہ أن یکلف عبدہ من الرعي ما یطیق۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الوقف، مطلب لیس للأجیر الخاص أن یصلي النافلۃ‘‘: ج ۹، ص: ۹۴)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص339