الجواب وباللّٰہ التوفیق: شریعت میں جماعت اور مسجد کی بڑی فضیلت آئی ہے ایک نابینا شخص نے آپ B سے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت مانگی، تو آپ B نے فرمایا: تم اذان کی آواز سنتے ہو انہوں نے کہا جی! تو آپ B نے فرمایا: پھر تم مسجد میں آیا کرو۔ مسجد میں جماعت کی نماز کا ثواب گھر کی نماز سے بہت زیادہ ہے،(۱) اس کے علاوہ مسجد مسلمانوں کا مرکز ہے جس سے ہر مسلمان کو وابستہ رہنا چاہیے، گھر میں جماعت کی پابندی سے کئی مسائل بھی پیدا ہوں گے مسجد کی برکت سے محرومی، مسجد میں افراد زیادہ ہوتے ہیں جتنے زیادہ افراد ہوں گے اتنا ثواب زیادہ ملے گا،(۲)
مسجد میں کوئی اللہ والا بھی شریک ہے کہ اس کی دعا میں ہم بھی شریک ہو جائیں گے، اس لیے فقہاء نے ایسے لوگوں کو جو مسجد آسکتے ہیں گھر میں نماز کے اصرار کو ناپسند کیا ہے۔ آپ نے جن دو مصلحت کا ذکر کیا ہے، ایک راستہ ہے، اگر واقعی راستہ پر خطر ہو، تو ایسی صورت میں گھر میں جماعت کرنے کی گنجائش ہو سکتی ہے؛(۱) لیکن دوسری وجہ کہ گھر پر زیادہ لوگ شریک ہوں گے او رمسجد میں کم لوگ جائیں گے یہ عذر نہیں ہے؛ اس لیے کہ وہ لوگ جو مسجد نہیں جاتے ہیں انہیں ترغیب دی جائے اور مسجد کی نماز کی فضیلت کو بیان کیا جائے او رایک ایک نماز میں آہستہ آہستہ ان کو مسجد لانے کا پابند بنایا جائے، مسجد میں صرف جماعت کا ہی نہیں بلکہ تکثیر جماعت کا اہتمام ہونا چاہئے۔ (۲)
(۱) إن ابن أم مکتوم أتی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وکان ضریر البصر فشکا إلیہ وسألہ أن یرخص لہ في صلاۃ العشاء والفجر، وقال: إن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وبینک أشیاء، فقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ہل تسمع الأذان، قال: نعم! مرۃ أو مرتین فلم یرخص لہ في ذلک۔ (المعجم الأوسط، ’’باب من اسمہ: محمود‘‘: ج ۸، ص: ۳۰،الشاملۃ)
(۲) أن صلاۃ الرجل مع الرجل أزکی من صلاتہ وحدہ وصلاتہ مع الرجلین أزکی من صلاتہ مع الرجل وما کثر فہو أحب إلی اللّٰہ تعالیٰ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب في فضل صلاۃ الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۱۶؛ ’’أزکی‘‘ أي أکثر ثواباً۔ (عون المعبود، ’’کتاب الصلاۃ، باب في فضل صلاۃ الجماعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۸۲)
(۱) ویسقط حضور الجماعۃ بواحد من ثمانیۃ عشر شیئاً مطر وبرد وخوف۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب فصل یسقط حضور الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۱)
(۲) لأن قضاء حق المسجد علی وجہ یؤدي إلی تقلیل الجماعۃ مکروہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل بیان محل وجوب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۰)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص353