الجواب وباللّٰہ التوفیق: کسی بزرگ کی وجہ سے جماعت میں تاخیر اسی صورت میں درست ہے جب کہ تاخیر کی وجہ سے وقت مکروہ میں نماز پڑھنی نہ پڑے اور اس بزرگ کی جماعت میں شرکت یا امامت کا انتظار مقتدیوں کو بھی ہو ۔ مذکورہ صورت میں چوں کہ مقتدیوں کو اس انتظار پر ناراضگی ہے؛ اس لیے یہ انتظار درست نہیں ہوا، آئندہ کے لیے امام کو متنبہ کردیا جانا چاہئے۔(۱)
(۱) فالحاصل أن التأخیر القلیل لإعانۃ أہل الخیر غیر مکروہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج۲، ص: ۱۹۹)
وینتظر المؤذن الناس، ومقیم للضعیف المستعجل ولا ینتظر رئیس المحلۃ وکبیرہا وینبغي أن یؤذن في أول الوقت ویقیم في وسطہ حتی یفرغ المتوضي من وضوء ہ والمصلي من صلاتہ والمعتصر من قضاء حاجتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘: ج۱، ص: ۱۱۴، زکریا دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص370