30 views
گھر میں جماعت کرنے والا حدیث میں مذکور وعید سے بچ جائے گا یا نہیں؟
(۴۴)سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین ان احادیث کے بارے میں اور فقہاء کی ان عبارتوں کے بارے میں جو با جماعت نماز سے متعلق ہیں کیوں کہ زید یہ کہتا ہے کہ  احادیث میں جو وعید مذکور ہیں وہ اس شخص کے لیے ہیں جو مسجد میں اصل جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھے کیا یہ صحیح ہے؟ نیز فقہاء کی عبارتوں میں جو سنت اور وجوب مذکور ہے اس سے مراد مسجد میں اصل جماعت (جماعت اولیٰ) کے ساتھ نماز پڑھنا ہے؟ یا اگر کوئی شخص گھر میں جماعت کر لے یا مسجد میں جماعت ثانیہ کرلے تو وہ وعید سے بچ جائے گا اور سنت ادا کرنے والا ہوگا؟
فقط: والسلام
المستفتی: احمد، سنبھلی
asked Dec 30, 2023 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللہ التوفیق: مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ہی اصل سنت ہے، اور اسی کی تاکید ہے اور اسی پر بعض فقہاء نے وجوب کاحکم لگایا ہے، اس کو ترک کرنے والا اس وعید کا مستحق ہوگا جو حدیث میں وارد ہوئی ہے، البتہ ترک کرنے سے مراد عادت بنالینا ہے، کبھی اتفاقی طور پر کسی وجہ سے ترک ہوجانامراد نہیں ہے۔ اس لیے اگر کبھی کسی وجہ سے جماعت چھوٹ جائے، توتنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہے کہ گھر میں جماعت کرلی جائے جیسا کہ ایسی صورت میں نبی علیہ السلام سے گھر جاکر جماعت سے نماز پڑھنا ثابت ہے۔
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے دیہی علاقوں سے لوٹ کر آئے اور نماز کی ادائیگی کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ لوگ نماز سے فارغ ہوگئے ہیں؛ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر چلے گئے اور گھر کے افراد کو جمع کیا اور ان کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھی۔(۱)
محدث ہیثمی ؒ نے کہا کہ اس حدیث کے تمام راوی مضبوط ہیں۔ شیخ ناصر الدین البانی ؒ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا۔ شیخ حسن سلمانؒ نے بھی اس حدیث کے صحیح ہونے کا اقرار کیا ہے۔(۲)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ مسجد میں نماز ادا کرنے کے لیے نکلے تو دیکھا کہ لوگ مسجد سے باہر آرہے ہیں اور جماعت ختم ہوگئی ہے۔ چناں چہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس گھر آئے اور جماعت کے ساتھ نماز ادا فرمائی۔ (اس روایت کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبیر ۰۸۳۹‘‘ میں صحیح سند کے ساتھ ذکر کیا ہے نیز ابن عبد الرزاق نے ’’مصنف ۲/۹۰۴/۳۸۸۳‘‘ میں ذکر کیا ہے)۔
’’عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: والذي نفسي بیدہ لقد ہممت أن آمر بحطب فیحطب، ثم آمر بالصلاۃ فیؤذن لہا، ثم آمر رجلاً فیؤم الناس، ثم أخالف إلی رجال فأحرق علیہم بیوتہم، الخ۔‘‘(۱)
’’صلاۃ الجماعۃ تفضل صلاۃ الفذ بسبع وعشرین درجۃ‘‘(۲)
’’قال في الشامي: (قولہ: وتکرار الجماعۃ) لما روي عبد الرحمن بن أبي بکر عن أبیہ ’’أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج من بیتہ لیصلح بین الأنصار فرجع وقد صلی فی المسجد بجماعۃ فدخل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم في منزل بعض أہلہ فجمع أہلہ فصلی بہم جماعۃ‘‘ المرأۃ إذا صلت مع زوجہا في البیت إن کان قدمہا لحذاء قدم الزوج لاتجوز صلاتہما بالجماعۃ، وإن کان قدماہا خلف قدم الزوج إلا أنہا طویلۃ تقع رأس المرأۃ في السجود قبل رأس الزوج جازت صلاتہا؛ لأن العبرۃ للقدم‘‘(۳)

(۱) معجم الکبیر للطبرانی، مجمع الزوائد ج۲، ص۵۴، المعجم الاوسط ج۵،ص ۱۰۶۴،ج ۷،ص ۲۸۶، المجروحین لابن حبان ج ۳ص۴، ۵، الکامل لابن عدی ج ۶،ص۸۹۳۲۔
(۲) إعلام العابد في حکم تکرار الجماعۃ فی المسجد الواحد، ص ۴۳
(۱) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب کیف الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۷۱، رقم: ۵۰۶،ط: اشرفی دیوبند۔
(۲) أخرجہ البخاري، فيصحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب فضل صلاۃ الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۹، رقم: ۶۴۵۔
(۳) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘ ج ۲، ص: ۲۸۸۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص381

answered Dec 30, 2023 by Darul Ifta
...