88 views
جماعت کے لیے کتنے آدمیوں کا موجود ہونا ضروری ہے؟
(۵۳)سوال: حضرت مفتی صاحب: مسئلہ دریافت کرنا ہے کہ: جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی کیا فضیلت ہے؟ اور شریعت مطہرہ میں اس کا کیا حکم ہے؟ نیز باجماعت نمازوں کے لیے کتنے آدمیوں کا موجود ہونا ضروری ہے، تاکہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کی جا سکے؟ ’’بینوا وتوجروا‘‘
فقط: والسلام
المستفتی: محمد شمشیر، مراد آباد، یوپی
asked Dec 30, 2023 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ہر عاقل، بالغ مرد پر جسے مسجد تک جانے میں مشقت نہ ہو جماعت سے نماز پڑھنا سنت مؤکدہ یعنی واجب کے قریب ہے۔ اگر دو آدمی بھی ہوں تو بھی جماعت قائم کی جائے۔ ان میں سے ایک امام بنے اور دوسرا مقتدی، حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’دو یا دو کے اوپر جماعت ہے، جیسا کہ امام ابن ماجہ رحمہ اللہ کی روایت اور علامہ حصکفیؒ کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا سنت مؤکدہ ہے اور جماعت کے لیے دو یا دو سے زائد پر جماعت کا اطلاق ہوتا ہے:‘‘
’’إثنان فما فوقہما جماعۃ‘‘(۱)
’’والجماعۃ سنۃ مؤکدۃ للرجال … وأقلھا إثنان، … وقیل: واجبۃ و علیہ العامۃ أي: عامۃ مشایخنا وبہ جزم فی التحفۃ وغیرھا، قال في البحر: وھو الراجح عند أھل المذھب، فتسن أو تجب ثمرتہ تظھر في الإثم بترکھا علی الرجال العقلاء البالغین الأحرار القادرین علی الصلاۃ بالجماعۃ من غیر حرج‘‘(۲)
باجماعت نماز کی فضیلت کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے جماعت سے نماز ادا کرنا تنہا نماز ادا کرنے پر ستائیس درجے فضیلت رکھتا ہے۔
’’صلاۃ الجماعۃ تفضل صلاۃ الفذ بسبع وعشرین درجۃ‘‘(۳)
بعض احادیث میں بغیر عذر شرعی باجماعت نماز نہ پڑھنے کو منافقت کی نشانی قرار دیا گیا ہے اور ایسے لوگوں کے لیے سخت وعید ہے۔ امام بخاری نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے کہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! میں نے ارادہ کیا کہ لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں تو وہ اکٹھی کی جائیں، پھر نماز کا حکم دوں تو اس کے لیے اذان کہی جائے۔ پھر ایک آدمی کو حکم دوں کہ لوگوں کی امامت کرے پھر ایسے لوگوں کی طرف نکل جاؤں (جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے) اور ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اگر ان میں سے کوئی جانتا کہ اسے موٹی ہڈی یا دو عمدہ کھریاں ملیں گی تو ضرور نماز عشاء میں شامل ہوتا۔
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم قال: والذي نفسي بیدہ، لقد ہممت أن آمر بحطب فیحطب، ثم آمر بالصلاۃ فیؤذن لہا، ثمّ آمر رجلا فیؤم الناس، ثم أخالف إلی رجال فأحرق علیہم بیوتہم، والذي نفسي بیدہ، لو یعلم أحدہم: أنہ یجد عرقا سمینا، أو مرماتین حسنتین، لشہد العشاء‘‘(۱)

(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا: باب الإثنان جماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۲، رقم: ۹۷۲۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۷، ۲۹۱، ط: مکتبۃ زکریا دیوبند۔
(۳) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب فضل صلاۃ الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۱، رقم: ۶۱۹۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجماعۃ والإمامۃ: باب وجوب صلاۃ الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۱، رقم: ۶۱۸۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص393

answered Dec 30, 2023 by Darul Ifta
...