94 views
نماز باجماعت واجب، سنت یا مستحب ہے؟
(۵۵)سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں:
نماز باجماعت ادا کرنی واجب ہے یا سنت، یا مستحب؟ علمائے کرام اور فقہائے عظام اور سلف صالحین کی اس سلسلے میں کیا رائے ہے؟ نیز بغیر جماعت کے نماز ادا کرنے سے حنفی مسلک میں نماز ادا ہوتی ہے یا نہیں؟ ’’بینوا وتوجروا‘‘
فقط: والسلام
المستفتی: محمد قمر عالم، پالی، دربھنگہ
asked Dec 30, 2023 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ کا دارو مدار دو مسئلوں پر ہے۔ ایک تو یہ کہ نماز باجماعت ادا کرنی واجب ہے یا صرف سنت، یا مستحب یعنی افضل اور موجب ثواب ہے۔ اور اگر واجب ہے تو کیا یہ صحتِ نماز کے لیے شرط ہے۔ یعنی جماعت کے بغیر نماز نہیں ہوتی یا شرط نہیں یعنی نماز تو ہو جاتی ہے لیکن انسان ترکِ جماعت کی وجہ سے معصیت اور گناہ کا مرتکب ہو جاتا ہے۔
اول مسئلہ سے متعلق امام بخاریؒ، امام احمدؒ، امام شافعیؒ، ابن المنذرؒ، حسن بصریؒ، ابن خزیمہؒ، ابن حبانؒ، ابو ثورؒ، عطا بن ابی رباحؒ اور اوزاعیؒ کا فتویٰ یہ ہے کہ نماز باجماعت واجب ہے اور بغیر عذر شرعی کے جماعت کا چھوڑنا جائز نہیں۔ اور اگر کوئی چھوڑ دے تو نماز ادا تو ہو جائے گی، لیکن وہ ترک جماعت کی وجہ سے مرتکب معصیت ہو گا۔ کیوں کہ ترکِ واجب معصیت ہے۔
حافظ ابن حجرؒ فتح الباری میں اور ابن القیمؒ نے ’’الصلاۃ وحکم تارکہا‘‘ میں لکھتے ہیں۔
’’و إلی القول بأنھا فرض عین ذھب عطاء و الأوزاعي و احمد و جماعۃ من محدثي الشافعیۃ کأبي ثور و إبن خزیمۃ و إبن المنذر و إبن حبان و بالغ داود و من تبعہ فجعلھا شرطا في صحۃ الصلٰوۃ‘‘(۱)
’’أما المسئلۃ  الاولٰی فاختلف الفقھاء فیھا فقال بوجوبھا عطاء بن أبي رباح والحسن البصري و أبو عمرو الأوزاعي و أبو ثور و الإمام أحمد في ظاھر مذھبہ و نص علیہ الشافعي في مختصر المزنی فقال و أما الجماعۃ فلا رخص في ترکھا إلا من عذر و قالت الحنفیۃ و المالکیۃ ھي سنۃ مؤکدۃ و لکنھم یؤثمون تارک السنن الموکدۃ و یصححون الصلاۃ بدونھا و الخلاف بینھم و بین من قال أنھا واجبۃ لفظي وکذلک صرح بعضھم بالوجوب‘‘(۲)
وجوب جماعت کے جو لوگ قائل ہیں ان میں سے صرف داؤد ظاہری اور بعض حنابلہ کا یہ قول ہے کہ جماعت صحت نماز کے لیے شرط ہے اگر جماعت فوت ہو جائے تو نماز تنہا ادا نہیں ہوتی؛ لیکن یہ قول مرجوح ہے۔ حافظ ابن حجرؒ نے اسی واسطے اس کا ذکر اس طریق پر کیا ہے کہ: ’’بالغ داؤد ومن تبعہ فجعلھا شرطا في صحۃ الصلٰوۃ‘‘(۱) یعنی دائود ظاہری نے وجوب جماعت میں مبالغہ کیا ہے ۔ اور اس کو صحتِ نماز کے لیے شرط قرار دیا، بعض حنابلہ بھی اس کے قائل ہیں۔
’’أحدھما أنھا فرض یأثم تارکھا و تبرأ ذمتہ بصلاتہ وحدہ۔ و ھذا قول أکثر المتاخرین من أصحاب أحمد في روایۃ حنبل فقال: إجابۃ الداعي إلیٰ الصلٰوۃ فرض و لو أن رجلاً قال ھي عندی سنۃ أصلیھا في بیتي مثل الوتر وغیرہ لکان خلاف الحدیث و صلاتہ جائزۃ و في روایۃ ثانیۃ ذکرھا أبو الحسین الزعفراني في کتاب الاقناع أنھا شرط للصحۃ فلا تصح صلاۃ من صلی وحدہ حکاہ القاضی من بعض الأصحاب واختارہ أبو الوفا ابن عقیل وأبو الحسن التمیمي وھو قول داود وأصحابہ‘‘(۲)
لیکن امام احمد بن حنبل کا قول جیسا کہ امام ابنِ تیمیہؒ، حافظ ابن قیمؒ اور حافظ ابن حجرؒ نے لکھا ہے۔ یہی ہے کہ وہ وجوب جماعت کے قائل ہیں۔ لیکن جماعت کو صحت نماز کے لیے شرط نہیں مانتے، تو گویا بقول حافظ ابن حجرؒ جس طرح نماز جمعہ کی صحت کے لیے جماعت شرط ہے اسی طرح پانچوں وقت کی نمازوں کی صحت کے لیے جماعت شرط نہیں البتہ ترک جماعت بہت بڑی معصیت اور گناہ ہے۔ جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت وعید اور تہدید فرمائی ہے۔
اور اسی طرح امام ابن تیمیہؒ نے ’’االاختیارات العلمیہ‘‘ میں تحریر کیا ہے۔ ’’و إذا قلنا ھي واجبۃ علٰی الأعیان و ھو المنصوص عن أحمد وغیرہ من أئمۃ السلف و فیھا الحدیث فھولاء تنازعوا فیما إذا صلی منفردا لغیر عذر ھل تصح صلاتہ؟ علیٰ قولین أحدھما: لا تصح وھو قول طائفۃ من قدماء أصحاب أحمد و الشافعي۔ والثاني: تصح مع إثمۃ بالترک وھو الماثور عن أحمد و قول أکثر أصحابہ‘‘(۳)
’’و بالغ داود من تبعہ فجعلھا شرطا في صحۃ الصلاۃ و لما کان الوجوب قد ینفک عن الشرطیۃ قال أحمد أنھا واجبۃ غیر شرط‘‘
دوسرا گروہ علماء کا وہ ہے جو نہ وجوب جماعت کا قائل ہے نہ جماعت کو شرطِ صحت نماز قرار دیتا ہے۔ یہ گروہ حنفی اور مالکی علماء کا ہے۔ یہ جماعت کو سنت مؤکدہ کہتے ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ سنت مؤکدہ کا تارک گنہگار ہوتا ہے۔
’’والجماعۃ سنۃ مؤکدۃ للرجال … وأقلھا اثنان، … وقیل: واجبۃ و علیہ العامۃ أي: عامۃ مشایخنا وبہ جزم فی التحفۃ وغیرھا، قال في البحر: وھو الراجح عند أھل المذھب، فتسن أو تجب ثمرتہ تظھر في الإثم بترکھا علی الرجال العقلاء البالغین الأحرار القادرین علی الصلاۃ بالجماعۃ من غیر حرج‘‘(۱)
’’قولہ: ’’من غیر حرج‘‘ قید لکونھا سنۃ مؤکدۃ أو واجبۃ فبالحرج یرتفع الإثم ویرخص فی ترکھا الخ ونقل عن الحلبی أن الوجوب عند عدم الحرج وفی تتبعھا فی الأماکن القاصیۃ حرج لا یخفی۔
’’قولہ: ’’وسن مؤکداً‘‘: أي: استنانا مؤکداً بمعنی أنہ طلب طلباً مؤکداً زیادۃ علی بقیۃ النوافل، ولھذا کانت السنۃ المؤکدۃ قریبۃ من الواجب في لحوق الإثم کما في البحر، ویستوجب تارکھا التضلیل واللوم کما في التحریر، أي: علی سبیل الإصرار بلا عذر کما فی شرحہ‘‘(۲)
خلاصہ یہ ہے کہ سوائے ظاہر یہ اور بعض حنابلہ کے اکثر ائمہ دین علماء سلف اور صحابہ کرامؓ کا فتویٰ اس بارے میں یہی ہے کہ نماز باجماعت بغیر عذر شرعی کے چھوڑنے والا گناہ گار ہو گا؛ لیکن نماز اس کی منفرداً ہو جاتی ہے۔ سوائے نماز جمعہ کے کہ وہ بلا جماعت ہوتی ہی نہیں۔
’’في التلویح: ترک السنۃ المؤکدۃ قریب من الحرام یستحق حرمان الشفاعۃاھ ومقتضاہ أن ترک السنۃ المؤکدۃ مکروہ تحریماً لجعلہ قریباً من الحرام، والمراد بھا سنن الھدی کالجماعۃ والأذان والإقامۃ؛ فإن تارکھا مضلل ملوم کما في التحریر، والمراد الترک علی وجہ الإصرار بلا عذر‘‘(۱)

(۱) ابن حجر، فتح الباري شرح البخاري: ج ۲، ص: ۴۰۱ ۔
(۲) ابن قیم، ’’الصلاۃ وحکم تارکہا، فصل في حکم صلاۃ الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷۔
(۱) ابن حجر، فتح الباري شرح البخاري، ’’کتاب الصلوٰۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۷۔
(۲) ابن تیمیہ، الاختیارات العلمیۃ، ص: ۴۰۔
(۳) ابن حجر، فتح الباري شرح البخاري: ج ۲، ص: ۴۰۱۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۷، ۲۹۱ (مکتبہ زکریا دیوبند)
(۲) أیضاً: ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۱۔
(۱) أیضاً: ’’کتاب الحظر والإباحۃ‘‘: ج ۹، ص: ۴۸۷۔
 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص396

answered Dec 30, 2023 by Darul Ifta
...