25 views
امام ومقتدیوں کا مصلی ملا کر بچھانا چاہئے یا فصل کے ساتھ؟
(۵۸)سوال: امام کو مصلی مقتدیوں کی جائے نماز سے ملا کر بچھانا چاہئے یا کچھ فاصلہ سے تاکہ مقتدی وامام سے رکوع وسجود کر تے وقت ٹکراؤ نہ ہو سکے۔
فقط: والسلام
المستفتی: سلیم شاہ، ہرادون
asked Dec 30, 2023 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں نہ ملاکر بچھانا ضروری ہے نہ علا حدہ کر کے بچھانا ضروری ہے، بلکہ ایسے طریقہ پر مصلی بچھایا جائے کہ پیچھے کے مقتدی کو رکوع وسجود میں اور اٹھنے میں دقت نہ ہو۔(۱)
(۱) (والحائل لا یمنع) الاقتداء (إن لم یشتبہ حال إمامہ) بسماع أو رؤیۃ ولو من باب مشبک یمنع الوصول في الأصح (ولم یختلف المکان) حقیقۃ کمسجد وبیت في الأصح قنیۃ، ولا حکما عند اتصال الصفوف؛ ولو اقتدی من سطح دارہ المتصلۃ بالمسجد لم یجز لاختلاف المکان، درروبحر وغیرہما، وأقرہ المصنف لکن تعقبہ في الشرنبلالیۃ ونقل عن البرہان وغیرہ أن الصحیح اعتبار الاشتباہ فقط. قلت: وفي الأشباہ وزواہر الجواہر ومفتاح السعادۃ أنہ الأصح. وفي النہر عن الزاد أنہ اختیار جماعۃ من المتأخرین۔ (قولہ: ولم یختلف المکان) أی مکان المقتدي والإمام. وحاصلہ أنہ اشترط عدم الاشتباہ وعدم اختلاف المکان، ومفہومہ أنہ لو وجد کل من الاشتباہ والاختلاف أو أحدہما فقط منع الاقتداء، لکن المنع باختلاف المکان فقط فیہ کلام یأتي (قولہ: کمسجد وبیت) فإن المسجد مکان واحد، ولذا لم یعتبر فیہ الفصل بالخلاء إلا إذا کان المسجد کبیرا جدا وکذا البیت حکمہ حکم المسجد في ذلک لا حکم الصحراء کما قدمناہ عن القہستاني۔ وفي التتارخانیۃ عن المحیط: ذکر السرخسي إذا لم یکن علی الحائط العریض باب ولا ثقب؛ ففي روایۃ یمنع لاشتباہ حال الإمام، وفي روایۃ لا یمنع وعلیہ عمل الناس بمکۃ، فإن الإمام یقف في مقام إبراہیم، وبعض الناس وراء الکعبۃ من الجانب الآخر وبینہم وبین الإمام الکعبۃ ولم یمنعہم أحد من ذلک۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ ‘‘: ج۲، ص: ۳۳۳، ۳۳۶)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص401

 

answered Dec 30, 2023 by Darul Ifta
...