82 views
نمازیوں کے گزرنے کے لیے صف کے کنارے میں جگہ چھوڑنا:
(۶۱)سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں:
دریافت طلب امر یہ ہے کہ ہمارے مدرسہ کی مسجد میں طلبہ اور اساتذہ کے علاوہ گاؤں اور محلہ کے لوگ بھی آتے ہیں آخر کی صفوں میں مسبوقین کی خاص تعداد ہوتی ہے، نماز سے فراغت کے بعد اگلی صفوں والے پیچھے آنا چاہتے ہیں جن میں ہرطرح کے لوگ ہوتے ہیں، تو ان کو پیچھے آنے میں دقت ہوتی ہے، خلل فی الصفوف، تخطی رقاب وغیرہ، اس سے بچنے کے لیے جب مشورہ کیا گیا تو بعض اساتذہ نے ایک مدرسہ کا حوالہ دے کر بتلایا کہ وہاں یہ معمول ہے کہ مسجد کے دونوں کناروں میں ایک فٹ کے بقدر جگہ چھوڑ کر صف لگائی جاتی ہے۔ نماز مکمل ہونے کے بعد اگلی صفوں والے نماز سے فراغت کے بعد وہاں سے باہر نکل جاتے ہیں ہم لوگوں نے اس تجویز کو نافذ کرنے سے پہلے مناسب سمجھا کہ دارالافتاء سے استفسار کرلیا جائے کہ ’’مرور بین یدی المصلین،خلل في الصفوف، تخطی رقاب‘‘ وغیرہ بچنے کے لیے یہ صورت مناسب ہے یا نہیں؟ ’’بینوا وتوجروا‘‘۔
فقط: والسلام
المستفتی: مولانا سید شاہد حسین، کرناٹک
asked Dec 30, 2023 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کی درستگی کے لیے صفوں کی درستگی کا خاص اہتمام کرنے کی تاکید آئی ہے،اور صفیں مکمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے؛ لیکن اگر مذکورہ مصلحت کے تحت صفوں کے دونوں کناروں پر ایک گز جگہ چھوڑ دی جائے اور کسی مخصوص علامت کے ذریعہ اس جگہ کو صف سے نکال دیا جائے، تو اس کی بھی گنجائش ہوگی تاکہ تخطی رقاب اور مرور بین المصلی لازم نہ آئے۔(۱) بعض علماء نے بڑی مسجدوں میں عام نماز وں کے اندر صف کے دونوں کناروں کو چھوڑ کر بیچ میں صف لگانے کی اجازت دی ہے۔ البتہ اس کا خیال رہے کہ صفوں کی دونوں جانب برابر ہوں امام صفوں کے درمیان کھڑا ہو۔(۲)
(۱) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: وسطوا الإمام وسدوا الخلل۔ (أخرجہ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب مقام الإمام من الصف، دار السلام‘‘: ج۱، ص:۹۹، رقم: ۶۸۱)
لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام لا یقطع الصلاۃ مرور شيء إلا أن المار آثم  لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: لو علم المار بین یدي المصلي ماذا علیہ من الوزر لوقف أربعین وإنما یأثم إذا مر في موضع سجودہ علی ما قیل ولا یکون بینہما حائل وتحاذی أعضاء المار أعضائہ لو کان یصلی علی الدکان۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیھا‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۴)
(۲) لأن التخطي حال الخطبۃ عمل، وہو حرام وکذا الإیذاء والدنو مستحب وترک الحرام مقدم علی فعل المستحب ولذا قال علیہ الصلاۃ والسلام للذي رآہ یتخطي الناس ویقول افسحوا اجلس فقد آذیت وہو محمل ما روي الترمذي عن معاذ بن أنس الجہني قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تخطی رقاب الناس یوم الجمعۃ اتخذ جسرا إلی جہنم، شرح المنیۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۳)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص404

answered Dec 30, 2023 by Darul Ifta
...