85 views
صفوں میں سے لوگوں کے گزرنے کے لیے جگہ چھوڑنا:
(۶۲)سوال: اتصال صفوف سے متعلق ایک مسئلہ میں رہنمائی فرمائیں!
ہماری مسجد کے شمال کی جانب دیوار سے متصل ایک خالی جگہ ہے، جہاں نمازیوں کے لیے جمعہ اور عیدین کے دنوں میں چٹائیاں بچھائی جاتی ہیں، جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ دیوار سے متصل پانچ، چھ صفیں بچھائی جاتی ہیں، جس میں ایک صف کے اندر چھ سات نمازی کھڑے ہو سکتے ہیں، پھر ان صفوں کے دائیں جانب ہی پانچ چھ فُٹ جگہ لوگوں کے گزرنے کے لیے چھوڑ کر مزید صفیں بنائی جاتی ہیں۔
اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس طرح صفوف کے عدم اتصال سے نماز ہوجائے گی یا نہیں
یا اتصال صفوف ضروری ہے، جب کہ چھوڑی ہوئی جگہ لوگوں کی مستقل گزر گاہ ہے، اس کے علاوہ ان کے لیے اور کوئی گزرنے کا راستہ بھی نہیں ہے؟ براہ کرم شریعت کی روشنی میں جواب عنایت فرماکر ممنون فرمائیں۔
فقط: والسلام
المستفتی: محمد یوسف، ممبئی
asked Dec 30, 2023 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں نماز درست ہے، لیکن اگر صفوں کے درمیان فاصلہ دو صفوں کے بقدر یا زائد ہے تو اقتداء درست نہیں ہوگی۔(۱)
’’والمانع في الصلوۃ فاصل یسع فیہ صفین علی المفتی بہ‘‘(۲)

(۱) (ویمنع من الاقتداء) صف من النساء بلا حائل قدر ذراع أو ارتفاعہن قدر قامۃ الرجل مفتاح السعادۃ أو (طریق تجری فیہ عجلۃ) آلۃ یجرہا الثور (أو نہر تجری فیہ السفن) ولو زورقا ولو في المسجد (أو خلاء) أي فضاء (في الصحراء) أو في مسجد کبیر جدا کمسجد القدس (یسع صفین) فأکثر إلا إذا اتصلت الصفوف فیصح مطلقا، کأن قام في الطریق ثلاثۃ، وکذا إثنان عند الثاني لا واحد اتفاقا لأنہ لکراہۃ صلاتہ صار وجودہ کعدمہ في حق من خلفہ۔ (والحائل لا یمنع) الاقتداء (إن لم یشتبہ حال إمامہ) بسماع أو رؤیۃ ولو من باب مشبک یمنع الوصول في الأصح (ولم یختلف المکان) حقیقۃ کمسجد وبیت في الأصح قنیۃ، ولا حکما عند اتصال الصفوف؛ ولو اقتدی من سطح دارہ المتصلۃ بالمسجد لم یجز لاختلاف المکان۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۰، ۳۳۱)
(۲) حسن بن عمار، مراقی الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، فصل في الأحق بالإمامۃ، وترتیب الصفوف: ص: ۱۱۲۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص405

answered Dec 30, 2023 by Darul Ifta
...