الجواب وباللّٰہ التوفیق: صف اول میں جگہ خالی چھوڑ کر دوسری صف بنانا مکروہ ہے؛ البتہ اگر صف اول میں جگہ نہ ہو تو آنے والا دوسری صف میں کھڑا ہو جائے، اور ممکن ہو تو کسی ایک مقتدی کو صف اول سے کھینچ کر اپنے ساتھ دوسری صف میں کھڑا کر لے، لیکن آج کل لوگوں میں جہالت غالب ہے، اگلی صف سے کھینچنے میں نماز کے فساد کا قوی اندیشہ ہے، اس لیے تھوڑا انتظار کرے کہ کوئی مصلی آجائے تو اس کو ساتھ لے لے اور اگر کوئی ساتھ میں کھڑا ہونے والا نہ ہو تو تنہا دوسری صف بنا لے۔ اگر کوئی شخص دوسری صف میں تنہا کھڑا ہو جب کہ پہلی صف میں ایک آدمی کی جگہ باقی ہو تو آنے والے کو چاہئے کہ دوسری صف میں کھڑے ہونے والے کے ساتھ کھڑا ہو جائے، اور اگر دوسری صف میں دو لوگ ہوں اور پہلی صف میں ایک آدمی کی گنجائش ہے تو آنے والے کو چاہئے کہ صف اول کو پُر کرے، اور اس کے لیے اگر نمازی کے سامنے سے گزر کر جانا پڑے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔(۱)
(۱) کرہ کقیامۃ في صف خلف صف فیہ فرجۃ … ولو وجد فرجۃ في الأول لا الثاني لہ خرق الثاني لتقصیرہم، وفي الحدیث من سد فرجۃ غفر لہ وصح خیارکم ألینکم مناکب في الصلاۃ، وبہذا یعلم جہل من یستمسک عند دخول داخل بجنبہ في الصف، ویظن أنہ ریاء کما بسط في البحر (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، مطلب في الکلام علی الصف الأول‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۲)
وقدمنا کراہۃ القیام في صف خلف صف فیہ فرجۃ للنہی، وکذا القیام منفردا وإن لم یجد فرجۃ بل یجذب أحدا من الصف ذکرہ ابن الکمال، لکن قالوا في زماننا ترکہ أولٰی، فلذا قال في البحر: یکرہ وحدہ إلا إذا لم یجد فرجۃ۔ (أیضًا:)
والأولٰی في زماننا عدم الجذب والقیام وحدہ وفي الخلاصۃ إن صلی خلف الصف منفردا مختارا من غیر ضرورۃ یجوز وتکرہ، ولو کبر خلف الصف وأراد أن یلحق بالصف یکرہ، وفي الفتح عن الدرایۃ لو قام واحد بجنب الإمام وخلفہ صف یکرہ إجماعا، والأفضل أن یقوم في الصف الأخیر إذا خاف إیذاء أحد وفي کراہۃ ترک الصف الأول مع إمکان الوقوف فیہ اختلاف۔ وفي الشرح إذا تکامل الصف الأول لا ینبغي أن یتزاحم علیہ لما فیہ من الإیذاء (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، فصل في المکروھات‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۱)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص407