الجواب وباللّٰہ التوفیق: مؤذن کا اگلی صف میں کھڑا ہونا ضروری نہیں ہے اور اگلی صف میںکھڑے ہونے کو لازم سمجھنا بھی درست نہیں اگر اگلی صف میں جگہ نہ ہو اور مؤذن دوسری تیسری، چوتھی صف میں کھڑے ہوکر تکبیر پڑھے تو جائز اور درست ہے اس میںکوئی کراہت نہیں، مؤذن اپنا مصلی بچھا کر جگہ متعین کرے اور پھر اس پر جھگڑا کرے یہ درست نہیں؛ لیکن اگر مؤذن اس جگہ کے لیے جھگڑا نہیں کرتا تو دوسروں کو بھی چاہئے کہ اس کی نشان زدہ جگہ پر اعتراض نہ کریں اس لیے کہ پہلے آکر مسجد میں کسی جگہ رومال وغیرہ رکھ کر نشان زد کرنا درست ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۱)
(۱) قولہ وتخصیص مکان لنفسہ لأنہ یخلّ بالخشوع کذا في القنیۃ أي لأنہ إذا اعتادہ ثم صلی في غیرہ یبقی بالہ مشغولا بالأوّل بخلاف ما إذا لم یألف مکاناً معیناً، قولہ ولیس لہ الخ … قال في القنیۃ: لہ في المسجد موضع معیّن یواظب علیہ وقد شغلہ غیرہ، قال الأوزاعي: لہ أن یزعجہ ولیس لہ ذلک عندنا، أي لأن المسجد لیس ملکاً لأحد قلت: وینبغي تقییدہ بما إذا لم یقم عنہ علی نیۃ العود بلا مہلۃ کما لوقام للوضوء مثلا ولا سیّما إذا وضع فیہ ثوبہ لتحقق سبق یدہ تأمل۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا، مطلب في الغرس في المسجد‘‘: ج۲، ص:۴۳۶)
وعندي في النہي عن توطین الرجل مکاناً معیناً في المسجد وجہ وہو أنہ إذا وطن المکان المعین في المسجد یلازمہ فإذا سبق إلیہ غیرہ یزاحمہ ویدفعہ عنہ وہو لایجوز لقولہ علیہا السلام إلا مني مناخ من سبق فکما ہو حکم منی فہو حکم المسجد فمن سبق إلی موضع منہ فہو أحق بہ فعلی ہذا لو لازم أحد أن یقوم خلف الإمام قریباً منہ لأجل حصول الفضل وسبق إلیہ من القوم أحد لایزاحمہ ولا یدافعہ فلا یدخل في ہذا النہي۔ (خلیل أحمد سہارنفوري، بذل المجہود، ’’کتاب الصلوۃ: باب صلاۃ من لایقبح صلبہ في الرکوع والسجود‘‘: ج۲، ص: ۷۶، رقم: ۸۶۱، مکتبہ میرٹھ)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص427