24 views
کیا صفوں کی درستگی امام کی ذمہ داری ہے؟
(۹۴)سوال: مقتدی کا صف درست کرنا فرض ہے؟ صفوں کے بیچ میں خالی جگہیں ہوتی ہیں لوگ اس کو پر نہیں کرتے۔ بعض امام بالکل کچھ نہیں بولتے۔ کیا یہ امام کی ذمہ داری نہیں ہے کہ لوگوں کی صف پہلے درست کرے پھر نماز شروع کرے؟ امام لوگ اس پر بالکل توجہ نہیں دیتے۔ سعودی میں شاید ہر نماز میں کہتے ہیں کہ صفیں درست کرلیں تو یہاں انڈیا میں بھی اس کو کرنا چاہئے یا
نہیں یا کیا وجہ ہے؟
فقط: والسلام
المستفتی: محمد ہلال، میرٹھ
asked Dec 31, 2023 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللہ التوفیق: صفوں کی درستگی سنت مؤکدہ ہے، اور صفوں کی درستگی کا اہتمام نہ کرنے پر سخت وعیدیں وارد ہیں۔ اس لیے یہ مقتدیوں کی ذمہ داری ہے کہ صف سیدھی کریں
اور صفوں کے بیچ میں خالی جگہیں پُر کریں۔ اور امام کو بیچ میں رکھیں، اگر کسی صف میں دائیں جانب کم لوگ ہوں تو آنے والا دائیں جانب صف میں کھڑا ہو تاکہ امام درمیان میں ہو اور دونوں جانب صف برابر ہوجائے۔ امام کو چاہئے کہ نماز شروع کرنے سے پہلے مقتدیوں کی صف کا معائنہ کرکے ان کو درست کرائے؛ لیکن یہ امام کے ذمہ لازم نہیں ہے، اگر اس کا اہتمام کرے تو بہتر ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرامؓ مقتدیوں کی صفوں کو درست کرانے کا اہتمام کرتے تھے۔
’’قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لتسون صفوفکم أو لیخالفن اللّٰہ بین وجوہکم، وکان في زمن عمر رضي اللّٰہ تعالی عنہ رجل موکل علی التسویۃ، کان یمشی بین الصفوف ویسوِّیہم، وہو واجب عندنا تکرہ الصلاۃ بترکہ تحریمًا، وسنۃ عند الشافعیۃ لانتفاء مرتبۃ الواجب عندہم، وذہب إبن حزم إلی أنہ فرض‘‘(۱)
’’عن أنس عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: سووا صفوفکم فإن تسویۃ الصفوف من إقامۃ الصلاۃ‘‘(۲)
’’قال علیہ السلام: لتسون صفوفکم، أو لیخالفن اللّٰہ بین وجوہکم وفیہ: أنس، قال الرسول:  أقیموا الصفوف، فإني أراکم من وراء ظہری۔ تسویۃ الصفوف من سنۃ الصلاۃ عند العلماء، وإنہ ینبغي للإمام تعاہد ذلک من الناس،  وینبغی للناس تعاہد ذلک من أنفسہم، وقد کان لعمر وعثمان رجال یوکلونہم بتسویۃ الصفوف، فإذا استوت کبرا إلا أنہ إن لم یقیموا صفوفہم لم تبطل بذلک صلاتہم۔ وفیہ: الوعید علی ترک التسویۃ‘‘(۱)
’’قلت: قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تراصوا، وقولہ: رصوا صفوفکم، وقولہ: سدوا الخلل، ولا تذروا فرجات للشیطان، وقول النعمان بن بشیر: فرأیت الرجل یلزق کعبہ بکعب صاحبہ الخ، وقول أنس: وکان أحدنا یلزق منکبہ بمنکب صاحبہ
الخ، کل ذلک یدل دلالۃ واضحۃ علی أن المراد باقامۃ الصف وتسویتہ إنما ہو اعتدال القائمین علی سمت واحد وسد الخلل والفرج في الصف بإلزاق المنکب بالمنکب والقدم بالقدم، وعلی أن الصحابۃ في زمنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کانوا یفعلون ذلک، وأن العمل برص الصف والزاق القدم بالقدم وسد الخلل کان في الصدر الأول من الصحابۃ وتبعہم، ثم تہاون الناس بہ‘‘(۲)
’’أي یصفہم الإمام بأن یأمرہم بذلک۔ قال الشمني: وینبغي أن یأمرہم بأن یتراصوا ویسدوا الخلل ویسووا مناکبہم ویقف وسطا‘‘(۳)

(۱) الکشمیري، فیض الباري علی صحیح البخاري، ’’کتاب الصلوۃ، باب تسویۃ الصفوف‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۹۔
(۲) أیضًا:۔
(۱) ابن بطال، فتح الباري علی صحیح البخاري، ’’کتاب الصلوۃ، باب تسویۃ الصفوف‘‘: ج۲، ص: ۳۳۴۔
(۲) مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، الفصل الاول‘‘: ج۲، ص: ۵۵۔
(۳) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘ج۲، ص: ۳۰۹۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص436

 

answered Dec 31, 2023 by Darul Ifta
...