108 views
میری بیوی مجھ سے لڑ کر اکثر اپنے گھر چلی جاتی تھی اور ۱۰-٨ دن میں واپس آجایا کرتی تھی۔ واپس آنے پر ہم صحبت بھی کر لیا کرتے تھے۔ لڑائی میں مینے اسے کئ بار یہ الفاظ بولے"جا تو آزاد ہے کچھ بھی کر " لیکن میری نیت طلاق دینے کی نہیں تھی۔ اس طرح یہ الفاظ ادا کرنے کا شرعاً کیا حکم ہے؟؟؟
SHAHRUKH KHAN
MOB.-070091 86931
asked Dec 31, 2023 in طلاق و تفریق by MEHTAB ALAM

1 Answer

Ref. No. 2755/45-4286

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (نوٹ: اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوں کہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔  ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔  ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے)

جا تو آزاد ہے، یہ لفظ ہمارے عرف میں طلاق صریح کے لئے مستعمل ہے، اور لڑائی کے درمیان یہ الفاظ کئی بار کہے گئے ہیں، اس لئے طلاق کی نیت کے  بغیربھی اس سے طلاق واقع ہوگئی۔ لہذا صورت مسئولہ میں اگر یہ لفظ آزاد کیا یا آزاد ہے تین بار سے زیادہ بولا ہے تو عورت طلاق مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی، اب دونوں کا ایک ساتھ رہنا ہر گز جائز نہیں ہے۔  عورت پر عدت لازم ہے، اور عدت کے بعد عورت کو کسی دوسرے مرد سے نکاح کا اختیار ہوگا۔  

’’وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحا كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية‘‘(الدر المختا ر مع رد المحتار،کتاب الطلاق،باب صریح الطلاق،ج:3،ص:252،ط:سعید)

’’والأصل الذي عليه الفتوى في زماننا هذا في الطلاق بالفارسية أنه إن كان فيها لفظ لا يستعمل إلا في الطلاق فذلك اللفظ صريح يقع به الطلاق من غير نية إذا أضيف إلى المرأة، مثل أن يقول في عرف ديارنا: دها كنم أو في عرف خراسان والعراق بهشتم؛ لأن الصريح لا يختلف باختلاف اللغات وما كان في الفارسية من الألفاظ ما يستعمل في الطلاق وفي غيره فهو من كنايات الفارسية فيكون حكمه حكم كنايات العربية في جميع الأحكام والله أعلم.‘‘ (بدائع الصنائع:کتاب الطلاق،فصل فی النیۃ،ج:3،ص:102،دار الکتب العلمیۃ)

’’ولو قال في حال مذاكرة الطلاق باينتك أو أبنتك أو أبنت منك أو لا سلطان لي عليك أو سرحتك أو وهبتك لنفسك أو خليت سبيلك أو أنت سائبة أو أنت حرة أو أنت أعلم بشأنك. فقالت: اخترت نفسي. يقع الطلاق وإن قال لم أنو الطلاق لا يصدق قضاء.‘‘ (فتاوی ہندیہ  کتاب الطلاق،الفصل الخامس،ج:1،ص:375،ط:دار الفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Jan 7 by Darul Ifta
...