الجواب وباللہ التوفیق: (۱) اگر امام کے سامنے سترہ نہ ہو تو مقتدی کے سامنے سے گزرنا درست نہیں ہے، ہاں اگر پہلی صف میں جگہ خالی ہو تو صف پُر کرنے کے لیے مقتدی کے لیے آگے سے گزرنے کی اجازت ہے۔
’’ولو وجد فرجۃ في الأول لا الثاني لہ خرق، الثاني لتقصیرہم وقال العلامۃ ابن عابدین: یفید أن الکلام فیما إذا شرعوا وفي القنیۃ: قال في آخر صف وبین الصفوف مواضع خالیۃ فللداخل أن یمر بین یدیہ لیصل الصفوف‘‘(۱)
(۲) اگر امام کے سامنے سترہ ہو تو وہ مقتدیوں کا بھی سترہ شمار ہوگا، لہٰذا اگر کوئی شخص نماز کے دوران مقتدیوں کی صف کے آگے سے گزرنا چاہے تو گزر سکتا ہے اس سے وہ گنہگار نہیں ہوگا۔
’’وکفت سترۃ الإمام للکل قولہ للکل أي المقتدین بہ کلہم وعلیہ فلو مر مار في قبلۃ الصف في المسجد الصغیر لم یکرہ إذا کان للإمام سترۃ‘‘(۲)
(۳، ۴) امام کا اگر سترہ ہو تو مقتدی کے سامنے سے گزرنا جائز ہے اور امام کے سامنے دیوار بھی سترہ کے حکم میں ہے۔
’’یجوز أن یکون السترۃ ستارۃ معلقۃ إذا رجع أو سجد یحرکہا رأس المصلي ویزیلہا من موضع سجودہ ثم تعود إذا قام أو قعد‘‘(۳)
’’کان بین مصلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وبین الجدار ممر الشاۃ‘‘(۴)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في الکلام…علی الصف الأوّل‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۲۔
(۲) أیضًا:۔
(۳) أیضًا: ’’باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۰۔
(۴) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب قدرکم ینبغي أن یکون بین مصلي والسترۃ ‘‘: ج ۱، ص: ۵۱، رقم: ۴۹۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص448