66 views
اقتدا کے مسائل:
(۱۱۸)سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں:
(۱) دو یا تین منزلہ مساجد میں عام طورپر امام صاحب کے مصلی کے اوپر والی چھت میں کھلا حصہ رکھا جاتا ہے تاکہ اوپر والے مصلیان اور امام صاحب کے درمیان واسطہ برقرار رہے اگر واسطہ یعنی چھت کے کھلے حصے کو بند کرکے نماز پڑھی جائے یا واسطہ رکھا ہی نہ جائے، تو اوپر والے مصلیان کی نماز ہوگی یا نہیں؟
(۲) بعض علماء کا کہنا ہے کہ مکبر الصوت واسطے کا کام کرسکتاہے اوپر والے مصلیان کی نماز ہوجائے گی کیا یہ صحیح ہے؟
(۳) اگر مسجد سے متصل کسی جگہ میں اسپیکر رکھاجائے، تو آیا اس جگہ میں نماز اداکرنے والے مصلیان کی نماز ہوجائے گی یا نہیں ؟
(۴) ایک امام صاحب کی عادت ہے فرض وسنتوں سے فراغت کے فوری بعد نماز یوں کی جانب منہ کرکے کھڑے ہوکر مسجد سے نکلنے کا انتظار کرتے ر ہتے ہیں کیا یہ عمل صحیح ہے ۔
(۵) عمل کثیر کی تعریف بیان فرمائیں۔
(۶) کیا عمل کثیر سے نماز فاسدہوجاتی ہے۔
فقط: والسلام
 المستفتی: محمد خالد، حیدر آباد
asked Jan 1 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللہ التوفیق: (۱، ۲) اقتداء کے لیے ضروری ہے کہ مقتدی کو امام کے احوال سے واقفیت ہو تاکہ مقتدی حضرات ارکان میں امام کی مکمل اتباع کرسکیں اسی لیے پہلے جب کہ مائک وغیرہ کا نظم نہیں ہوتا تھا، تو مسجدکی دوسری منزل پہ نماز کے لیے پہلی منزل کی چھت کے سامنے کا حصہ  کھلا رکھاجاتا تھا تاکہ امام صاحب کی آواز اس کھلے حصے سے اوپر آجائے اور مقتدی حضرات ارکان میں امام کی پیروی کرسکیں اس کے علاوہ کھلا حصہ رکھنے کا بظاہر کوئی مقصد سمجھ میں نہیں آتا ہے؛ اب جب مائک کے ذریعہ آواز دوسری منزل میں پہونچ جاتی ہے، تو وہ حصہ کھلا رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اگر اوپر کا حصہ مکمل بند ہوجائے او رمقتدی حضرات کو امام کے احوال کا علم ہوجائے، تو نماز بلا کراہت ہوجائے گی۔(۱)
(۳) اقتداء کی شرطوں میں سے ایک اہم شرط امام او رمقتدی کے مکان کا متحد ہوناہے۔ یہ اتحاد مکان حقیقی ہو یا حکمی ہو۔ مثلاً مسجد میں امام ہے اور اسی مسجد میں مقتدی ہے تو یہ اتحاد مکان حقیقی ہے اور نیچے کی منزل میں امام ہے اور اوپر کی منزل میں مقتدی ہے تو یہ اتحادِ مکان حکمی ہے؛ لیکن مسجد میں امام صاحب ہوں اور دوسرے مکان میں مقتدی ہو، تو اگر چہ اسپیکر کے ذریعہ آواز پہونچ رہی ہو لیکن اقتدا درست نہیں ہے ہاں! اگر مسجد میں جگہ پرُ ہوجائے اور مسجد سے متصل جگہ میں لوگ نماز پڑھیں اور درمیان میں گاڑی وغیرہ گزرنے کے بقدر فاصلہ نہ ہو، تو نماز درست ہے۔(۱)
(۴) اپنی نماز سے فارغ ہونے کے بعد پیچھے راستہ ملنے کا انتظار کرنا چاہیے؛ لیکن کھڑے ہوکر مسجد سے نکلنے کا انتظار کرنا مناسب نہیں؛ اس لیے کہ اس سے سامنے والے کی نماز میں خلل واقع ہوتاہے۔
(۵) عمل کثیر اور عمل قلیل کی متعدد تعریفیں کی گئی ہیں، اکثر علما کے نزدیک راجح تعریف یہ ہے کہ دور سے دیکھنے والا شخص نمازی کو اس عمل کی وجہ سے یقین یا غالب گمان کے درجہ میں یہ سمجھے کہ یہ نماز میں نہیں، نماز سے باہر ہے تو وہ عمل کثیر ہے، اور اگر اسے محض شک ہو یا شک بھی نہ ہو؛ بلکہ اس عمل کے باوجود دیکھنے والا اسے نماز ہی میں سمجھے تو وہ عمل قلیل ہے۔(۲)
(۶) عمل کثیر سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔(۳)

(۱) (والحائل لا یمنع) الاقتداء (إن لم یشتبہ حال إمامہ) بسماع أو رؤیۃ ولو من باب مشبک یمنع الوصول في الأصح (ولم یختلف المکان) حقیقۃ کمسجد وبیت في الأصح قنیۃ، ولا حکما عند اتصال الصفوف؛ ولو اقتدی من سطح دارہ المتصلۃ بالمسجد لم یجز لاختلاف المکان۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج۲، ص: ۳۴-۳۳۳)
(۱) قد تحرر بما تقرر أن اختلاف المکان مانع من صحۃ الاقتداء و لو بلا اشتباہ و لا یصح الاقتداء و إن اتحد المکان ثم رأیت الرحمتي قد قرر ذلک فاغتنم ذلک۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب الکافي للحاکم جمع کلام محمد في کتبہ‘‘: ج۲، ص: ۳۳۵)
من کان بینہ و بین الإمام نہر أو طریق أو صف من النساء فلا صلاۃ لہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل شرائط أرکان الصلاۃ‘‘: ج۱، ص:۳۰۵)
(۲) والثالث أنہ لو نظر إلیہ ناظر من بعید إن کان لایشک أنہ في غیر الصلاۃ فہو کثیر مفسد، وإن شک فلیس بمفسد، وہذا ہو الأصح، ھکذا في التبیین، وھو أحسن کذا محیط السرخسي، وھو اختیار العامۃ کذا في فتاویٰ قاضي خان والخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، الفصل الثاني‘‘: ج۱، ص: ۱۵۶)  وفیہ أقوال، أصحہا مالایشک بسببہ الناظر من بعید في فاعلہ أنہ لیس فیہا وإن شک أنہ فیھا فقلیل۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا‘‘: ج۲، ص: ۳۸۵، ط مکتبہ زکریا دیوبند)
(۳) (و) یفسدہا (کل عمل کثیر) لیس من أعمالہا ولا لإصلاحہا، وفیہ أقوال خمسۃ أصحہا (ما لایشک) بسببہ (الناظر) من بعید (في فاعلہ أنہ لیس فیہا) وإن شک أنہ فیہا أم لا فقلیل۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب في التشبہ بأہل الکتاب‘‘: ج۲، ص:۳۸۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص462

 

answered Jan 1 by Darul Ifta
...